فضل مولا زاہد
حضرات! پچھلے دنوں ”خپل کلی وال کارواں“ کے زیر ِاہتمام ضلع سوات کی وادی کوکاری میں خواتین کانفرنس کا انعقاد ہوا، جس میں سماجی میدان میں سرگرم علاقے کی کئی ممتاز خواتین نے دنیا کی نصف سے زیادہ مکینوں کی بھرپور نمائندگی کا حق ادا کیا۔ اپنے مسائل و مشکلات پر کھل کر تبادلہ خیا ل کیااور ان کے ممکنہ حل کے سلسلے میں کارآمد تجاویز دیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہم من حیث القوم خواتین کو بچوں کی تعلیم و تربیت اور گھر کے کام کاج کی ذمہ داری کے علاوہ کسی اورمعاشی، معاشرتی یا سماجی سرگرمی میں آزادانہ طورپر کوئی کردار دینے کو نہ صرف یہ کہ تیار نہیں بلکہ اُن کی کسی قسم کی ایسی سرگرمی میں شرکت کو بڑے فخر کے ساتھ معیوب سمجھتے ہیں۔ جو تعلیم یافتہ خواتین کسی شعبے میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں، اُن میں اکثر یت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ بعض کوہراساں بھی کیا جاتاہے۔ الغرض بڑا دل گردہ چاہیے ”صنفِ نازک“ کو بھی یہ کوہِ گراں سر پہ اُٹھانے کو۔
اعداد وشمار کو قابلِ بیان کرکے بات کی جائے، توخیبر پختون خوا کی ساڑھے چار کروڑ آبادی میں محض بیس فیصد یا نوے لاکھ شہروں میں بستی ہے جب کہ ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ مخلوقِ خدا غیر منظم دیہاتوں میں زندگی کی صعوبتوں کے ساتھ برسرِ پیکار ہے جس میں خواتین کی تعداد پونے دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ دیہی آبادی کے اتنے بڑے اور نظروں سے دور حصے کو خوراک، تعلیم و تربیت، صحت اور روزگار کی سہولتیں، ”صنفِ کرخت“ کومیسر نہیں، کجا ”صنفِ نازک“۔ کبھی تو ملاحظہ فرمائیں جو خواتین حصولِ علم یا ملازمت کے لیے شہروں میں جاتی ہیں، گھر سے لے کر اپنے منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے کتنی کٹھن اور وحشت ناک صورتِ حال سے گزرتی ہیں۔ کس قدرذہنی خلفشار سے گزرتی ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں اُن کی خدمات کو کس قدر کوڑیوں کے مول حاصل کیا جاتا ہے؟ بخدا یہ سارے کا ساراسلسلہ بڑا مضحکہ خیز ہے۔
پچھلے ایک عرصے سے بے روزگار خواتین کو حصولِ روزگار کے سہانے سپنے دیکھنے کی پاداش میں ٹیسٹنگ سروسز کے ڈھکوسلوں سے جس تکلیف دہ انداز میں گزارا گیا، لا حولہ ولاقوۃ۔ اُس کا احوال شاندانہ زاہد کے والد بزرگوار سے زیادہ بہتراورکون جانے؟ اس کرپٹ نظام نے تعلیم یافتہ بے روزگار خواتین کو شدید احساسِ محرومی، کم ہمتی اور احساسِ کمتری میں دھکیل دیا ہے۔ کانفرنس میں نشان دہی کی گئی کہ ان مسائل کو سامنے لانے اور ان پر مؤثر انداز میں کام کرنے کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر پُرعزم جد و جہد کی ضرورت ہے، تاکہ آنے والی نسلوں کو صحیح معنوں میں ایسا اُمید افزا اور پُرامن ماحول میسر ہو، جہاں وہ سکونِ قلب کے ساتھ اپنی خانگی اور مالی معاملوں کی دیکھ بال کرسکیں۔
اس کانفرنس میں خصوصی دعوت پر شرکت کرنے والی خیبر پختونخوا کی نامور ماہر تعلیم میڈم عفت ناصر، مایہ ناز و متحرک ٹرینر صابرہ شاکر، اولولعزم سماجی کارکن حمرا فرحان، تحقیق کار حنا لطیف، تنظیم کے شعبہئ خواتین کی سرگرم کارکنان ڈاکٹر شیخ نورالعین اور شاندانہ زاہد کے علاوہ دیگر شرکائے محفل نے خواتین کے حقوق، ذمہ داریوں، درپیش چیلنجز، خاندانی استحکام اور معاشرے کے سدھار پر تفصیلی روشنی ڈالی اور قرار دیا کہ مرد و خواتین زندگی کی چلتی گاڑی کے دو پہیے ہیں، جن کے باہمی تعاون و اشتراک کے بغیر اس گاڑی کا سکون اور امن سے چلنا محال ہوگا۔
کانفرنس، جس میں علاقے کی کئی تعلیم یافتہ گھریلو خواتین کے ساتھ ساتھ سکول اور کالج کی درجنوں طالبات نے شرکت کی، میں اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی کہ خواتین میں تعلیم اور شعور بڑھے گا، تو وہ معاشی طور پر خود کفیل ہو کر خوداعتمادی حاصل کر سکیں گی اور اس طرح معاشرے سے عدم برداشت کا عنصر وقت کے ساتھ ساتھ کم کیا جا سکے گا۔ کہا گیا کہ ماضی میں ہمارے ملک میں تعلیم کی کمی اور تنگ نظری پر مبنی رویوں اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے خواتین متعدد مسائل کا شکار رہی ہیں، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ شہری علاقوں میں اِس دباؤ میں کمی آ رہی ہے جہاں مختلف شعبوں میں خواتین کا بڑھتا ہوا کردار کسی حد تک حوصلہ افزا ہے جو ان کے شعوری استعداد میں اضافے کے رجحان کے ساتھ ساتھ نئی منزلوں کا تعین کر رہا ہے۔اس کے علاوہ اُن گھرانوں جہاں لڑکیوں کو ابتدائی تعلیم کے بعدپڑھانا بُرا سمجھا جاتا تھا، میں اتنی سمجھ بوجھ آ گئی ہے کہ اُن کی بچیاں بھی پیشہ ورانہ اداروں میں حصولِ علم میں مصروف ہیں۔
دوسری طرف پریشان کن صورتِ حال یہ بھی ہے کہ 70 فیصد تعلیم یافتہ خواتین میں تین چوتھائی کا حال یہ ہے کہ وہ اپنy علم وفن سے کسی اور کو تو چھوڑیں خود اپنے لیے بھی کوئی فائدہ نہیں حاصل کر پا رہیں۔ ہم نے اپنی آدھی افرادی قوت کی اکثریت کو عضو معطل بناکر گھر کی چار دیواری تک محدود اور اُن کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیا ہے۔ اس بابت ہمیں اپنے رویوں کی جانچ پڑتال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں یہ یقین کرنا ہوگا کہ ایک عورت باپردہ رہ کر بھی معاشرتی بہتری میں جتنا کردار ادا کر سکتی ہے، کوئی اور نہیں کرسکتا۔عورت اگر اچھی اور باسلیقہ ہے، تو گھر کا ماحول بہترین ہوگا۔ اگر وہ خراب اور ان پڑھ ہے، تو پورے گرد و پیش کا ماحول بھی خراب ہوگا۔ کسی معاشرہ میں عورت کا کردار اور حیثیت کی بنیاد پر قوم کی ترقی و تنزلی کی سطح کی درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔ اگر مرد اور عورت دونوں بیک وقت اور یکساں طور پر بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ دیگر معاشی و معاشرتی ذمہ داریاں بہ طریقِ احسن سرانجام دیں گے، تب دنیا میں امن و سکون او رترقی و خوشحالی آسکتی ہے۔
اس موقع پر سوات میں مجوزہ خواتین یونیورسٹی کے قیام کے فیصلے کو سراہا گیا اورکہا گیا کہ اس سلسلے میں فوری طور پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ وادیِ سوات کے خصوصی تناظر میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ دیہی علاقے کی نصف سے زیادہ آبادی کو تعلیم وتربیت کے وافر مواقع فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پرہر یونین کونسل میں خواتین کے ہائر سیکنڈری سکول، ڈگری کالج، فنی تربیت کے ادارے، کمیونٹی سنٹر، خواتین حجرے اور کھیلوں کے میدان بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جس سے وہ ہر شعبہئ زندگی میں علم و ہنراور تربیت سے مالامال ہو کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ سکیں گے اور معاشرتی سدھار میں اپنا متعین کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
کہا گیا کہ جو خواتین حصولِ تعلیم کے علاوہ مختلف شعبوں میں معاشرے کو پیشہ ورانہ خدمات فراہم کر رہی ہیں، حکومت اُن کو آسانیاں فراہم کرے۔ خواتین کے لیے سرکاری سطح پر ٹرانسپورٹ کی سہولیات مہیا کی جائیں، تاکہ وہ باعزت طور پر اپنے فرائضِ منصبی سے عہدہ برآں ہو سکیں۔معاشرے میں اُن کے کردار کے مثبت پہلوؤں کو سامنے لایا جائے، حکومت ان کو خصوصی حیثیت، اہمیت اور سہولتیں فراہم کرے۔ اُن کوعزت و تکریم سے نوازے۔
شرکا نے ”خپل کلی وال کارواں“ کے اس پروگرام کو بہت مفید اور بامقصد قرار دے کر زور دیا کہ اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے مزید وسعت دی جائے اور مستقبلِ قریب میں سوات میں ایک بھرپور خواتین کنونشن منعقد کرنے کی تیاری کی جائے جس میں خواتین کی روزمرہ مسائل کی نشاندہی ہواور اُس کے حل کے لیے ایک میکینزم ترتیب دے کر حکومتی توجہ مبذول کرائی جاسکے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابتدائی طور پر ”کارواں دہ خویندو زے“ کے نام سے ایک گروپ بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا جس میں خواتین سے متعلقہ امور پر بھرپور بحث و مباحثہ کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔
حرفِ مُدعا یہ ہے کہ ہماری خواتین جو آبادی کے تناسب سے نصف افرادی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ کئی خداداد صلاحیتوں سے بھی مالامال ہے، کو عزت و احترام کے ساتھ دینِ اسلام کی روح کے مطابق طرزِ معاشرت میں اپنا متعین کردہ کردار ادا کرنے کا موقع ملے۔اُن کو مؤثر افرادی قوت کے طور پر اپنی واضح شناخت ملے اور گھروں کے یہ سوا دو کروڑ بھیدی مزید احساسِ محرومی اور احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں۔
کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہوا
اشک بھی حرفِ مدعا نہ ہوا
ماہتابی نگاہ والوں سے
دل کے داغوں کا سامنا نہ ہوا
آپ رسمِ جفا کے قائل ہیں
میں اسیرِ غمِ وفا نہ ہوا
رہزن عقل و ہوش دیوانہ
عشق میں کوئی رہنما نہ ہوا
ڈوبنے کا خیال تھا ساغرؔ
ہائے ساحل پہ ناخدا نہ ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواتین کانفرنس، حرفِ دعا
