محمد شیر علی خان
سیرت النبیؐ ہمیشہ سے مسلمانوں کا محبوب موضوع رہاہے۔ یہ سلسلہ دورِ رسالت سے ہی چلاآ رہا ہے۔ اس دورمیں ہی صحابہ کرام اور صحابیات رضی اللہ تعالاعنہ نے آپ ؐ کے اقوال وافعال کوقلم بندشروع کردیاتھا۔ ان جاں نثاروں نے آپؐ کی ایک ایک ادا، عمل اور فرامین کو سیاق و سباق کے ساتھ محفوظ رکھا۔ ویسے توسیرت کے موضوع پرتقریباً ہر زبان میں نہایت مستند، جامع اور تفصیلی کتب موجود ہیں، لیکن عاشقانِ رسولؐ آج بھی اپنی بے لوث محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور اس صف میں آج بھی مصنفین اور ناشرین اپنا نام آجانا ہی نہایت عزت کامقام سمجھتے ہیں۔
اس میدان میں تاریخی گاؤں گوگدرہ (سوات) کا ایک سپوت جسے دنیا ”جہانگیر جہاں صاحب“ کے نام سے جانتی ہے، نے پشتو اشعارکے ذریعے ایک منظوم سیرت النبیؐ لکھ کراس کارواں میں شامل ہونے کا شرف حاصل کیا ہے۔ کتاب کے لیے عمدہ کاغذ استعمال کیاگیاہے۔ کالے رنگ کی یہ کتاب ہاتھ میں آتے ہی دل کو ایک قسم کا اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے اور بے اختیار پڑھنے کو جی للچاتا ہے۔
کتاب پر بدرالحکیم حکیم زئی، سراج الاسلام سراج اور محمدامین یوسف زئی نے اپنے میٹھے الفاظ سے عمدہ پیرائے میں تبصرہ کیا ہے۔
مصنف نے کتاب اپنے والدین اور ماموں زاد مرحومین بھائیوں سے منصوب کی ہے جس سے اُن کا رشتوں کے تقدس سے واقفیت کاپتا چلتاہے۔
کتاب تسلسل کے ساتھ ایک خاص ترتیب سے لکھی گئی ہے۔ گویاسیرت النبوی ؐ کے تمام حالات و واقعات آپ کو شعری لوازمات سے بھرپور مثنوی کے مالامیں پروئے ہوئے ملیں گے۔
فکر و فن کے اس گلدستے کے بارے محمد امین یوسف زئی لکھتے ہیں: ”جہان صاحب کی یہ کتاب سیرتِ پاک ایک اچھی ترتیب، ترسیل اورتسلسل سے لکھی گئی ہے۔ یہ ایک اچھی کاوش ہے۔ حضورؐ کی زندگی پربہت کچھ لکھاجاچکا ہے لیکن جہانزیب جہاں نے منفرد بحث کی ہے اور سیرت پرلکھی گئی پہلی منظوم کتاب بھی ہے۔“
کتاب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے شروع کی گئی ہے اور آگے بڑھتے ہوئے تمام واقعات کو بڑی تفصیل سے خوب صورت پیرائے میں بیان کیاگیا ہے جس سے مصنف کے عمیق مطالعے اور محنت شاقہ کاپتا چلتاہے۔
یو بادشاہ وو د عراق نومی نمرود
د وطن یی خوارہ ھر خوا وو حدود
دا بادشاہ وو لہ ازلہ بت پرست
وو د خپلی بادشاہئی پہ نشہ مست
دوسرے واقعات کے ساتھ ساتھ سردارِ دو جہاں حضرت محمدؐ کی ولادت مبارک کو سنہری حروف میں بیان کرتے ہوئے خوب صورت نقشہ پیش کیاہے۔
د دنیا نہ جوڑہ شوی بت کدہ وہ
ورکہ شوی د حق ھرہ قافلہ وہ
محمد بہ پیدا کیگی عبداللہ نہ
یو سڑیکہ شوہ یو نور شویو رنڑا شوہ
یوہ چغہ یوہ کریکہ، یو صدا شوہ
غرض یہ کہ آپ ؐ کی زندگی کاہرلمحہ خوب صورت پیرائے میں عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔ الفاظ کی ایسی جادوگری کی گئی ہے کہ پورانقشہ آنکھوں کے سامنے کھنچ جاتا ہے اور بندہ خود کو حضورؐ کے زمانے میں محسوس کرنے لگتا ہے۔
کتاب توبنیادی طورپرسیرت کے موضوع پرلکھی گئی ہے لیکن تاریخی واقعات کوبڑے شدومدسے بیان کیا گیا ہے۔
چی شروع دَ نبوت شو شپگم کال
پہ مکہ کی بدلیدلو رو رو حال
چی شو کال د نبوت یوولسم
د مکی کفارو خہ جوڑ کڑو ستم
مصنف نے کتاب میں غزوات، معاہدات، فتوحات، مسلمانوں پہ کیے گئے مظالم و مشکلات، عروجِ اسلام، بادشاہوں کے نام خطوط اورخطبہ حجتہ الوداع وغیرہ کو شعری انداز سے بیان کرتے ہوئے خوب صورت نقشہ کھینچا گیا ہے۔
پہ رو رو چی گنڑیدل مسلمانان
پہ کفارو د مکی راتلہ لڑزان
پاک رسولؐ کڑو اوس راغونڈ مسلمانان
پہ ہنر د دوی نہ اخلی امتحان
درجِ بالا بحث سے ہمیں مصنف کی تحقیق کی لگن اور سرور کائنات حضرت محمدؐ سے محبت کا جذبہ سر چڑھ کر بولتا نظر آتاہے۔
عمیق مطالعہ اور کتابوں کی چھانٹ بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ موصوف میں حضورؐ کی روزمرہ زندگی کے اوصاف، اخلاق اورسنتِ نبویؐ کی طرف رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ شاعری کا بیشتر حصہ ”مغازی“ ہے یعنی غزوات کو ایک مجاہدانہ جذبے سے بیان کیاگیاہے۔
الغرض، کتاب کا ہر شعر ایک خوب صورت حیثیت اور بلند مقام رکھتا ہے۔ قاری کتاب کو آخرتک بڑے شوق سے پڑھ سکتا ہے۔
جماعتِ اسلامی سے دلی لگاؤ رکھنے والے جہانگیر جہاں صاحب نے اَب تک چار کتابیں لکھی ہیں جن میں ایک محسنِ انسانیت (پہلا حصہ) صوبائی ایوارڈ یافتہ، د حرمینوں یادونہ اورایک زیرِطبع کتاب ”شعری ٹولگہ“ کے ساتھ زیرِ بحث کتاب ”محسنِ انسانیت“ ہے۔ مذکورہ کتابیں مصنف کادینِ اسلام سے محبت کابین ثبوت ہے۔
قارئینِ کرام! عالمِ کائنات کا سب سے مقدم اور مقدس خدمت یہ ہے کہ نفوسِ انسانیت کے اخلاقی اور اصلاحی تربیت کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے مقدم اوراعلا ذریعہ وعظ و پند کی کتابیں لکھ کرعام عوام کوپڑھنے کے لیے دی جائیں، بلکہ ملک کے طول وعرض میں پھیلائی جائیں۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں دوسرے کسی کونصیحت کرناانتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے، تو ان حالات میں اخلاق کے مجسم پیکر حضورؐ کی سیرت پیش کرنا، جو ہمہ تن آئینہ عمل ہو جہانگیر جہاں نے یہ کارنامہ سرانجام دیاہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالا اُن کو اس کارِ خیر کی انجام دہی پر اجرِ عظیم اورشرفِ قبولیت عطافرمائے، آمین!
محسنِ انسانیت ؐ، منظوم سیرۃ النبیؐ (تبصرہ)
