وح الامین نایابؔ
پچھلے دنوں غگ نیوز کی سرپرستی میں ایک علمی سیمینار منعقد ہوا۔ 6 ستمبر کو اباسین پبلک سکول خوازہ خیلہ میں یہ سیمینار 2 بجے دوپہر کے بجائے سہ پہر ساڑھے 3 بجے شروع ہوا۔ غگ نیوز کے سیمینار اور پروگرام ہمیشہ سنجیدہ موضوعات پر ہوتے ہیں۔ یہ موضوعات پشتون معاشرے سے متعلق بیان کیے جاتے ہیں۔ پشتون قوم کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل کے بارے میں خاطر خواہ بحث کرنے، سوچنے اور سمجھنے کے لیے مواقع پیدا کیے جاتے ہیں۔ ان پروگراموں کو ترتیب دینے کا سہرا دو نوجوانوں مختار احمد مختار اور مراد یاسین کے سر جاتا ہے۔ ان نوجوانوں نے علاقے کی ڈھیر ساری با اثر شخصیات، ادیب، شاعر، وکلا، اساتذہ، تاجر، عام دکان داروں اور سرکاری نوکر پیشہ حضرات کو اپنے اعتماد میں لیا ہوا ہے۔ اس وجہ سے یہ پروگرام ہر لحاظ سے بہت کامیاب ہوتے ہیں۔ پروگرام میں علاقے کے تمام شرکا کو بہت عزت و احترام دیا جاتا ہے۔
اس پروگرام میں بھی، پہلے کی طرح دور دور سے ہر قسم کے لوگ شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے اور پنڈال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تلاوتِ کلام پاک کے بعد مراد یاسین نے ابتدائی کلمات ادا کرتے ہوئے پروگرام کے غرض و غایت پر روشنی ڈالی اور تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کیا جب کہ مختار احمد مختار اور ہمارے کالم نگار دوست ساجد ابوتلتان سٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ سب سے پہلے محقق، مفکر، مدبر، مصنف، عبدالولی خان یونیورسٹی کے پروفیسر بدرالحکیم حکیم زئی نے ”پشتون اور آج کے دور کے تقاضے“ کے موضوع پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ”دنیا میں صرف پشتونوں کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ ان کی زبان پشتو صرف زبان کا نام نہیں بلکہ یہ ایک لفظ اپنے اندر پوری پشتون تہذیب، تمدن اور ثقافت کو سموئے ہوئے ہے۔ تم میں پشتو (پختو) نہیں، تم نے یہ کام پشتو کے خلاف کیا۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ لفظ ایک قانون، ایک رواج کا نام ہے جو تقریباً پانچ ہزار سالوں سے پشتونوں میں سینہ بہ سینہ چلا آ رہا ہے۔ اس طرح پشتونولی کچھ حدود کے بندھن کا نام ہے، جو اکثر اوقات آپس میں اختلافات کے باوجود ایک خاص موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ اس بندھن کے تحت کھڑے ہونے پر مجبور ہوتے ہیں، لیکن افسوس آج یہ سب کچھ خواب و خیال نظر آتا ہے۔ ہم نے غار سے ”خار“ (شہر کے لیے پشتو لفظ) تک ترقی کی لیکن یہ ترقی ایک دورِ ارتقا سے گزر کر نہیں ہوئی بلکہ ہم نے چھلانگ لگائی ہے۔ لہٰذا ہم نے اپنے تہذیبی اور رواجی ورثے کو یکسر بھلا دیا ہے۔ ہمیں نام نہاد ننگ، غیرت کے پہاڑ پر کھڑا کرکے تباہ و برباد کیا گیا۔ ہم سے علم کا تصور اور قلم چھین لیا گیا، جو دراصل پشتونوں کی اصل میراث ہے۔ ہم میں نرگسیت کا مادہ ڈالا گیا کہ باپ دادا کے کارنامے بیان کیے جائیں اور خود کوئی کارنامہ سرانجام دینے کے قابل نہ رہیں۔ یہ کیسی پشتونولی ہے، یہ کیسی پشتو اور غیرت ہے کہ ہم آپس میں مل بیٹھ نہیں سکتے، اپنا جرگہ نہیں کرسکتے، اپنے گاؤں میں بچوں کو پڑھانہیں سکتے۔ اپنا گھر، اپنا محلہ صاف کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ ہم بزرگوں کے ادب اور چھوٹوں کے ساتھ محبت سے محروم ہیں۔ ہمارا ”حجرہ“، ”اشر“، ”غوبل“ سب تباہ کیا گیا۔ ہمیں جدید دور کے تقاضوں کی سمجھ نہیں آتی۔ اس لیے تو ہمارے پشتون نوجوان موبائل پر ”پب جی کھیل“ کھیل رہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سارے علم و ہنر ہم اپنی قومی ترقی کے لیے استعمال کریں، نہ کہ ہم خود ان کے استعمال میں آجائیں۔“
پروفیسر شاہ جہاں نے ”طبقاتی نظام اور جمہوریت“ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ایک طبقاتی نظام میں جمہوریت نہیں پنپ سکتی۔ جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام میں جمہوریت کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ سامنے کے قصابوں میں سے پانچ سال کے لیے تم کس قصاب کو منتخب کروگے، جو بعد میں تمہاری تکہ بوٹی کرتا رہے۔ اس جمہوریت میں تو عوام کو ووٹ دینے کی آزادی ہے، لیکن انتخاب کے لیے وہی مخصوص استحصالی ٹولا ہے جس سے نظام تبدیل نہیں ہوسکتا۔ البتہ چہرے تبدیل ہوتے رہتے ہیں جس سے عوام کو بہلایا جاتا ہے۔ جمہوریت اشرافیہ کے اقتدار کا ایسا کھیل ہے جو ایک خاص دائرے کے اندر کھیلا جاتا ہے۔ عام آدمی کا استحصال جاری رہتا ہے۔ اکثریتی محنت کش اور مزدور طبقے کا خون نچوڑ کر طبقہئ اشرافیہ کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ لہٰذا ایسے نظام میں غرب دن بہ دن غریب ہوتا جاتا ہے جب کہ سرمایہ دار دن بہ دن مال دار ہوتا جاتا ہے۔ اس طبقاتی کشمکش میں تمام قانون و آئین سرمایہ دار طبقے کے تحفظ کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ریاست ہمیشہ سرمایہ دار طبقے کے تحفظ کے لیے کام آتی ہے۔ لہٰذا اس نظام سے جب غریب تنگ آجاتے ہیں، تو تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق پھر خوں ریز انقلاب آتے ہیں، جو سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتے ہیں۔ انقلابِ فرانس، انقلابِ روس، انقلابِ چین اس کی مثالیں ہیں۔“
مؤرخ، ادیب، لسانی محقق جناب محمد پرویش شاہین نے پختون معاشرے کی ترقی یافتہ شکل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا معاشرہ آگے نہیں جا رہا، بلکہ ہم پیچھے جا رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارا اپنا ڈالا ہوا حصہ کچھ بھی نہیں۔ ہماری تہذیب اور ثقافتی مراکز گھم ہوگئے ہیں۔ اگر مجھے اور میرے پشتون کو کوئی نہیں مانتا، تو مَیں بھی اُن کا کچھ نہیں مانتا۔ اُس نظام تعلیم پر لعنت ہے جس میں میری زبان شامل نہیں۔ مَیں اُس یونیورسٹی کا کیا کروں گا جس میں میری زبان نہ پڑھائی جاتی ہو؟ ہماری تہذیب و ثقافت اور تاریخ کو قصدا ً نظر انداز کیا جاتا ہے۔ میرے بچوں کو اپنے اجداد اور اکابرین کی تاریخ پڑھانے کے بجائے پرائے لوگوں کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ اس لیے میرا آج کا پشتون نوجوان اپنے آبا و اجداد کی تاریخ سے نا آشنا ہے۔ اس لیے جو قوم اپنی ماضی کی تاریخ نہیں جانتی۔ وہ حال میں کیسے آگے جائے گی۔ لہٰذا پشتون معاشرے پر ایک جمود طاری ہے۔ یہ جمود کیسے ٹوٹے گا اور کب ٹوٹے گا؟ مجھے نہیں معلوم، لیکن جب بھی ٹوٹے گا ایک بہت بڑی انقلابی تبدیلی ساتھ لائے گا۔
پرویش شاہین صاحب خاصی دیر تک بولتے رہے اور عوام داد دیتے رہے۔
آخر میں ایک مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس کی وجہ سے پروگرام کے ختم ہونے میں خاصی دیر ہوگئی۔ ہم ”غگ نیوز“ کے جوان منتظمین سے یہ درخواست کریں گے کہ ایسے سنجیدہ موضوعات کے پروگرام میں مشاعرے کا اہتمام نہ کریں۔ مشاعرے کا پروگرام علیحدہ کیا جائے جس میں شعرا جی بھر کر اپنا کلام پیش کریں اور شوقین حضرات مستفید ہوں۔ دوسری درخواست یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ بحث کے لیے تین موضوعات رکھے جائیں۔ موضوع دو اور ایک بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ مقرر تفصیل کے ساتھ بحث کرتے ہوئے اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرسکے گا۔ زیادہ موضوعات رکھنے سے وقت کم ہوتا ہے۔ مقرر کے ساتھ ساتھ حاضرین بھی تشنگی محسوس کرتے ہیں۔
یہ ایک بھر پور پروگرام تھا۔ اس علمی اور تحقیقی موضوعات پر بحث کرنے سے سامعین محظوظ اور مستفید ہوئے۔ سامعین نے مقررین کو بہت غور و خوض اور اطمینان سے سنا۔ یہ ایک سنجیدہ اور پُروقار تقریب تھی جس میں کوئی مصنوعیت، دکھاوا یا نمائش نہیں تھی۔ مَیں پروگرام کے حوالے سے منتظمین اور خاص کر مختار احمد مختار اور مراد یاسین کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اُن کی علمی اور سنجیدہ کاوشوں کو سراہتا ہوں اور خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ رات 9بجے کے قریب پروگرام اختتام پذیر ہوا۔ میں محمد پرویش شاہین کو ساتھ بٹھا کر منگلور کے جانب عازمِ سفر ہوا۔ راستے میں شاہین صاحب کی دلچسپ باتوں سے محظوظ ہوتا رہا۔ وہ میرے اُستاد رہے ہیں۔ ان کی خدمت کرتے ہوئے مجھے دلی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ پرویش شاہین صاحب کو زندہ اور سلامت رکھے، آمین!