حاضر گل

سوات کے جس بھی کونے کی بات کی جائے، وہ اپنی جگہ قدرتی حسن اور وسائل سے مالا مال ہے اور ایک نہ ایک انفرادی خصوصیت کا حامل ہے۔
ضلع سوات کے سب سے مشہور سیاحتی مقام کالام سے 35 کلو میٹر آگے مشہور جھیل ’’مہوڈنڈ‘‘ واقع ہے۔ مہو ڈنڈ جاتے ہوئے راستے میں اوشو،مٹلتان، پلوگا اور دیگر چھوٹے بڑے خوبصورت روایتی گاوؤ ں سے گزرناپڑتا ہے۔ تیز ترین سوشل میڈیا کے اس دور میں اگر میں مہو ڈنڈ کی خوبصورتی پر بحث کروں، تو اصل مسئلہ پیچھے رہ جانے کا احتمال ہے۔ لہٰذا میں اس کی خوبصورتی کو لاحق خطرات سامنے لانے کی کوشش کرتا ہوں۔
مینگورہ تا کالام روڈ کی قدرے بحالی کے بعد سیاحوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جب کہ مجوزہ چکدرہ تا باغ ڈھیری شاہراہ سے یہ تعداد دوگنا سے بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ آنے والے ان سیاحوں کو سہولیات درکار ہوں گی اور یہ عمل آگے جاکر علاقے میں معاشی سرگرمیوں کے فروغ کا باعث بنے گا۔ مگر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بحرین اور کالام میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے تعمیرات کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے دریائے سوات نظروں سے اوجھل ہے۔ ریستوران، ہوٹل اور گھروں سے نکلا ہوا آلودہ پانی بغیر کسی رکاوٹ کے دریائے سوات میں گرتا ہے۔ دریا کے آس پاس کی زمینیں مقامی لوگوں کے ہاتھوں سے نکل چکی ہیں۔ اکثر ہم مقامی بچوں کو سڑک کے کنارے علاقائی پھل اور دنداسا بیچتے یا بھیک مانگتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، جو علاقے میں بدترین غربت کا مظہر ہے۔ کالام کے آس پاس تعمیرات کے لیے زمین نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا دیگر علاقوں میں تعمیرات زور پکڑتی جائیں گی۔
مہوڈنڈ اور اس سے کچھ فاصلے پر واقع جھیل سیف اللہ جس کا مقامی نام کنڈیل شئی ’’یعنی کانٹوں کا چمن‘‘ ہے، کے آس پاس کی زمینیں مجموعی طور پر چار خاندانوں کے مابین تقسیم کردی گئی ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق عددی طور پر چھوٹے خاندانوں کا ہر مرد زیادہ سے زیادہ ایک کنال اور بڑے خاندانوں کا ہر مرد پانچ مرلہ زمین کا مالک بن گیا ہے۔ تقسیم کی لکیروں کی دیر تھی کہ غیر مقامی لوگوں نے یہاں زمینیں حاصل کرنے کی کوشش شروع کی۔ اب تک کئی مقامی لوگ غیر مقامی افرد کے ہاتھوں اپنی زمینیں فروخت کرچکے ہیں۔
بحرین اور کالام کی طرح تقسیم کے بعد مہوڈنڈ میں بے ترتیب ڈھابوں کا قیام تیزی سے جاری ہے۔ امکان ہے کہ اس سال یہاں مستقل عمارات کی تعمیر شروع ہوگی۔ اگرچہ عرصۂ دراز سے کالام اور ملحقہ علاقہ جات سوات کا باقاعدہ حصہ بن چکے ہیں، مگر یہاں سرکاری اداروں کی کار کردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیاحتی مقامات پر عمارت کی تعمیر کے لیے ہر جگہ کچھ نہ کچھ قوانین رائج ہوتے ہیں، تاکہ ایسے علاقوں کی خوبصورتی کو بحال رکھا جاسکے، مگر کالام کے ساتھ ساتھ ضلع سوات کے دیگر سیاحتی مقامات پر بغیر کسی مجاز ادارے کی منظوری کے تعمیرات جاری ہیں جو یقینا تشویش کی بات ہے۔ایک طرف منصوبہ بندی، دور اندیشی اور لوگوں کے قدرتی حسن کے بچاؤ میں دلچسپی ناپید ہے، تو دوسری طرف ان علاقوں کو عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی آفات کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔
بلاشبہ مہونڈڈ قدرت کا انمول تحفہ ہے، جسے دیکھنے لوگ سیکڑوں میل کا سفر طے کرکے آتے ہیں۔ بے ہنگم تعمیرات اورڈھابوں کی وجہ سے مہوڈنڈ کا فطری حسن متاثر ہوگا اور یوں یہ جگہ لاکھوں سیاحوں کے لیے متاثر کن نہیں رہے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس علاقہ کے باسی یہاں صدیوں سے آباد ہیں اور ان وسائل سے استفادہ بھی کر رہے ہیں، مگر اس بیش بہا ورثے کا کوئی معقول انتظام نہیں۔ یہاں پر آباد لوگوں کا اپنا روایتی جرگہ اب بھی بحال ہے، جو اس کام میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ فوری اور زیادہ کمائی کی خاطر فطری حسن کو تباہ کرنے سے بہتر ہے کہ علاقے کے عمائدین مل بیٹھ کر اس ورثہ کو بچانے کی کوشش کریں، تو ماہرین کو شامل کرکے مہوڈنڈ کے اردگرد تعمیرات، ان تعمیرات کا قدرتی آفات سے بچاؤ، تعمیرات میں مقامی فنِ تعمیر کی عکاسی اور مہو ڈنڈ کے فطری حسن کو بحال رکھنے کے لیے عوام کے اشتراک سے لائحہ عمل تیار کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے فطری حسن کو احسن طریقے سے محفوظ اور ذمہ داری سے استعمال کرکے مقامی آبادی کے لیے بہتر اور دیرپا روزگار مہیا کرنے کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ عمائدین، سماجی اور سیاسی راہنما و کارکن حکومتی اداروں کو ساتھ ملا کر ماحول دوست اور انسان دوست سیاحتی مقام کا ایک بہتر اور عملی نمونہ پیش کر سکتے ہیں۔ یہ اس بیش قیمت اثاثے سے نہ صرف مہوڈنڈ کے مالکان بلکہ اس سے لطف لینے والوں کا اولین فریضہ ہونا چاہیے۔ بصورتِ دیگر مہوڈنڈ کی خوبصورتی ختم ہو جائے گی۔ سیاح ایک خوبصورت مقام سے محروم اور مقامی لوگ اپنی زمین بیچ کر تنگ دستی کا شکار ہوں گے۔ نتیجتاً ہمیں سڑک کنارے دس روپے کے عوض انجیر وغیرہ بیچنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔