نیاز احمد خان
قارئین! سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں 30 ہزار سے زاید رکشے ہیں۔ ہزاروں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں۔ ان گاڑیوں کا ماہانہ چالان ایک کروڑ روپے سے زاید بنتا ہے۔ یہ ایک طرح سے ٹریفک پولیس، عوام سے بھتے کی صورت میں وصول کر رہی ہے۔ ٹریفک پولیس کے انچارج کے مطابق گیارہ لاکھ روپے ماہانہ صرف مینگورہ میں رکشوں سے جرمانوں کی صورت میں وصول کیے جاتے ہیں۔ ان جرمانوں میں پولیس اہل کار سے لے کر ڈی پی اُو تک کمیشن کی صورت میں ہرماہ اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔
قارئین، پولیس کا کہنا ہے کہ زیادہ گاڑیوں کو کنڑول کرنا ان کا کام نہیں۔ ان کا کام صرف سٹیٹ کے لیے کام کرناہے۔ وہ سارا نزلہ ایکسایز والوں پر ڈالتے ہیں۔ دوسری طرف ایکسایزوالے کہتے ہیں کہ یہ حکومتی مسئلہ ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ عوام کے پاس روزگار نہیں، اگر غیر قانونی رکشوں اور گاڑیوں پر ہاتھ ڈالا گیا، تو ان بے روزگاروں کو روزگار کون دے گا؟
اس تمام تر صورتِ حال میں شور اور دھواں اُڑاتی گاڑیوں کے بارے میں ماحولیات والے کہتے ہیں کہ وہ ان گاڑیوں کو جرمانہ کررہے ہیں۔ جرمانہ، جرمانہ اور بس جرمانہ……! ایسا لگتاہے کہ حکومت صرف ہرماہ رقم بٹورنے کے لیے اور عوام سے جرمانے کی صورت میں بھتا وصول کرنے کے لیے موجود ہے……!
ایسے میں مذکورہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں سے عوام پر جو اثرات مختلف امراض، ذہنی تناو، جرایم میں اضافے، وقت کے ضیاع اور دیگر لاتعداد پیدا ہونے والے مسایل کی شکل میں پڑتے ہیں، اس کا ادراک کس کی ذمے داری ہے؟ آخر کون یہ مسئلہ مستقل طورپر حل کرے گا؟
قارئین، اگر دیکھا جائے، تو اصول یہی ہے کہ حکومت ان مسایل کا خاتمہ کرے گی…… مگر حکومت کے ادارے جن میں پولیس، ماحولیات، ضلعی انتظامیہ، ایکسایز اور سب سے بڑھ کرمنتخب نمایندگان ہیں …… سب اپنے فرایض سے چشم پوشی اختیار کر رہے ہیں …… اور قصور وار ایک دوسرے کو ٹھہرا رہے ہیں۔
قارئین! یہ مسئلہ محض چند سال قبل اتنا سنگین نہیں تھا…… مگر مسلسل نظرانداز کیے جانے کی وجہ سے سنگین تر ہوتا چلا گیا۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ مختلف چوراہوں پر پولیس اور گاڑیوں کے ڈرائیور باہم مشت وگریباں نظر آتے ہیں۔ پولیس کے خلاف عوام کے سینوں میں نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ریاست کے خلاف بھی سینوں میں نفرت کا لاوا پکتا چلا جا رہا ہے۔ کیا حکومت ایک بار پھر ایک اور بڑے حادثے کی منتظرہے؟
جن اداروں نے ان ہزاروں غیرقانونی رکشوں کو چلانے کی اجازت دی ہے، جن پر نمبر پلیٹ تک نہیں اور ان کے ڈرائیور بھی کم عمر ہیں، ان کے انجن ناکارہ اور فرسودہ ہوچکے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ مذکورہ رکشوں کو مردان، نوشہرہ اور پشاور میں ناقابلِ استعمال قرار دیا جاچکا ہے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے ”ٹو سٹروک رکشے چلانے پر پابندی تک عاید کی ہے…… مگر سوات میں مسلسل قانون کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ پولیس دوسو روپے جرمانہ کی پرچی تھما کر غیر قانونی گاڑیوں کو پورے مہینے گاڑی چلانے کا اجازت نامہ دیتی ہے۔ اس مسئلے کا حل کسی کے پاس نہیں …… اور نہ اس کا ادراک ہی کیا جارہاہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہماری یہ صدا کسی کے کانوں میں پڑتی ہے یا دیگر صداؤں کی طرح ہوا میں تحلیل ہوتی ہے؟