ایڈووکیٹ نصیر اللہ
مغربی میڈیا اورحکمرانوں کی طرف سے ”اسلامو فوبیا“ کے عنوان سے مسلسل بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، مگر یہ اسلامو فوبیا آخر ہے کیاچیز، جس سے یورپی اور امریکی لیڈر اور عوام بوکھلاجاتے ہیں؟
قارئین، دراصل ایک مسلمان کے لیے اس کا سب کچھ دین اور آخرت ہی ہے۔مسلمان دنیا اور نیاوی معاملات کو سفری معاملات کے طور پر حل کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مسلمان دنیاوی زندگی سے بے زار ہوکر دنیاوی معاملات سے کنارہ کش ہوجائیں۔ اچھے نظامِ حکومت، سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی اور فلسفہ سے کوئی سروکار نہیں رکھیں۔ یورپی میڈیا اور حکمران درحقیقت یہ کہنا چا ہ رہے ہیں کہ مسلمان کی اسلام سے محبت حد سے آگے جا چکی ہے۔ اسی اسلام سے محبت نے انہیں خبط یعنی خوف کے مرض میں تبدیل کیا ہو ا ہے۔ مغربی حکمران ڈر گئے ہیں کہ مسلمان اسلام کو باقی دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔دراصل مغرب کو اسلام سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے، جو کہ انتہائی مکاری اور عیاری پر مبنی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سلسلے میں پہلے ہی سے مسلم ممالک شام، سوڈان، ایران، یمن، عراق اور لیبیا کے باشندوں پر امریکہ آنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ عراق، افغانستان، لیبیا اور شام میں کہرام مچایا ہوا ہے۔ یاد رہے شام کے پناہ گزینوں پر غیر معینہ مدت کی پابندی ہے۔ یہ وہی اسلامی ممالک ہیں جو امریکی شدت پسندی اور ریاستی دہشت پسندی سے تباہ و برباد ہوکر لاکھوں انسانوں کے قتل کے بعد اب زیر عتاب ہیں۔ مارچ 2011ء سے 4.8 ملین افراد مختلف ممالک میں پناہ گزین ہیں اور تقریباً اکتیس ہزار کو قتل کیا گیا ہے۔ عراق میں تقریباً 4.5 ملین بچے اپنے والدین سے بچھڑ گئے، چھے لاکھ بچے گلیوں میں پڑے رہتے ہیں۔ تین ملین کے قریب عورتیں بیوہ ہوگئیں۔2003ء سے 2013ء تک چار ملین افراد بے گھر ہوئے۔
مغربی ریاستوں میں اسلام سے خوف زدہ احساسات اور اسلام دشمن پالیسیاں اور اسلام مخالف نفرت انگیز تقاریر مسلمانوں میں اسلامو فوبیا کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ حتی کہ یوروپیائی ممالک، امریکہ اور فرانس سے بھی مسلمان ان ممالک کی اسلام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے ان مذکورہ ممالک میں مغربی پالیسیوں سے متنفر داعش کے ساتھ مل کر مغرب کے خلاف صف آرا ہیں۔ حالاں کہ یہ حقیقت ہے کہ داعش کی داغ بیل ان سپر پاور اور یورپیائی ممالک نے ڈالی ہے۔ مسلمان ممالک میں انہی جہادی گروپوں نے اپنے مسلمان بھائیوں اور حکومتوں کے خلاف جہاد شروع کر رکھا ہے۔ مساجد، حکومتی اہلکاروں، جنازوں، شادی پروگرامات وغیرہ،امام بارگاہوں، خانقاہوں، درباروں پر دھماکے کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ دراصل ان سامراجی ممالک کو ان ممالک میں اپنے دیرینہ ایجنڈے کی تکمیل میں مشکلات درپیش ہیں۔ اس لیے یہ ڈراما رچایا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی حالیہ اقوامِ متحدہ کی تقریر کو دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں سراہا گیا ہے۔ یہ غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈ ا کیا جا رہا ہے کہ مغربی ممالک کی طرف سے مسلمانوں پر اسلامو فوبیا اور اسلامک ٹیرر ازم کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ حالاں کہ یہ جنگیں ان کی مسلط کردہ ہیں۔ کیا کہنے کہ جنگ تو خود مسلط کر و، اور ڈھنڈورا پیٹتے جاؤ کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ کیا کسی کو اپنے مادرِ وطن کی حفاظت کی بھی اجازت نہیں۔ آپ کے لیے وطن پرستی جائز اور قوم پرستی جائز اور ہمارے لیے سانس لینا بھی حرام۔ عراق اور افغانستان کے علاوہ لیبیا وغیرہ پر اقوامِ متحدہ کے ویٹو پاؤرز کی طرف سے عائد کردہ ویٹو شدہ معاملے کے باوجود امریکہ بہادر حملے کردیتا ہے۔ کسی کو کو کچھ کہنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی مذمت کرنے کی۔ اقوامِ متحدہ امریکہ لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔ ان کی قراردادوں کو محض کاغذ کا ٹکڑا بنایا گیا ہے۔ طاقت کے نشے میں بد مست ہاتھی اب سعودیہ کے تعاون سے ایران کے ساتھ پنجہ آزمائی کی نیت اور ارادہ رکھتا ہے۔ پاکستان کو معاملہ کو سلجھانے کی خاطر ثالث کا کردار ادا کرنے کا کہاگیا ہے۔ وزیراعظم ہفتہ کو ثالثی کے لیے ایران اور سعودیہ عرب جا رہے ہیں۔ کیوں کہ بہادر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کو ثالثی کی سفارش کی ہے۔ کہنا چاہیے کہ ہمارا تو ایک بھی کام امریکہ سے نہیں ہوا۔ہم کیوں اس میں آپ کی مد د کریں، لیکن ہاں پاکستان کا معاملہ ہر وقت ایسے حکمرانوں میں گھرا رہتا ہے، جس کو ہر وقت گداگری کی سوجھتی ہے۔ سارا وقت غیر ملکی دوروں میں گزار دیتا ہے۔ بھلے ہی گورننس کے ایشو ز سر چڑھا کر بول رہے ہوں۔ ایلیٹ اور کاروباری طبقے کو کس طرح بے عزت کرنا ہے، تاکہ مطلب کا کام نکل سکے۔ ایسے بالکل بھی نہیں ہوتا۔
برسبیلِ تذکرہ، اکتیس اکتوبر کو آزادی دھرنا ملکی معاشی بربادی کی طرف ایک اور قدم ہے۔ حکومت کی اس مد میں کوشش صفر ہے۔ بہر حال ہم مضمون کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ اسلامو فوبیا دراصل مسلمانوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ مغربی حکمرانوں کا مسئلہ ہے۔ یہی عدم برداشت، شدت پسندی، بنیاد پرستی اور مذہبی جنونیت ان کی پیدا کردہ ہے۔ جہاد کا انہوں نے ناجائز استعمال کیا ہے۔ مسلمان ممالک کے تمام وسائل پر قبضہ جماکربیٹھے ہیں۔ مسلمان ممالک کو ایک دوسرے خلاف ورغلا کراپنا اسلحہ بیچنا اور دھاک بٹھانا چاہتے ہیں۔ جنگ کی فضا بنا کر اسلامو فوبیا کو آڑ بنا کر بلیک میلنگ پر اتر آئے ہیں۔
قارئین کرام، دراصل مَیں سمجھتا ہوں کہ اسلامو فوبیا کا مرض مغرب کے حکمرانوں کو لاحق ہوچکا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ اسلامو فوبیا کو اسلامو فیلیا کا نعم البدل مانا جائے۔ دہشت گردی اور جنگوں سے علیحدگی کا اعلان کیا جائے۔اسلام محبت، اخوت اور رواداری کادین ہے۔ مغرب کو اسلامو فوبیا نہیں بلکہ مسلمانوں کو جوز فوبیا ہوچکا ہے۔ باقی آپ سب کو پتا ہے کہ کس طرح جیوش ریس کو دنیا پر قابض کروانے کے لیے مختلف حربے، دھونس دباؤ، جنگیں مسلط کیں اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
اسلاموفوبیا
