وادی سوات میں مبینہ عسکریت پسندوں کے نقل و حرکت پر قابو پانے کے لئے وزیر اعلی محمود خان نے تحصیل مٹہ کی پہاڑی چوٹیوں پر پولیس کی اٹھارہ نئی چوکیوں کے قیام کا حکم دیا ہے یہ چوکیاں بہادر بانڈہ سے لیکر مدین کے علاقے تیراط تک قائم کی جائیں گی ۔ حکام اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پچھلے اگست کے اوائل سے لیکر اکتوبر کے وسط تک انہی پہاڑی چوٹیوں پر افغانستان سے واپس آنے والے عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری تھا ۔ چند روز قبل وزیر اعلی محمود خان نے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کے ہمراہ سوات کا دورہ کیا اس دوران انہیں علاقے کی مجموعی امن و امان کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا اور اس دورے کے اختتام پر وزیر اعلی نے آبائی تحصیل مٹہ کی پہاڑی چوٹیوں پر چوکیوں کی تعمیر کا حکم دیا۔ خیبرپختونخوا پولیس عہدیداروں کے مطابق اب وزیر اعلی کی ہدایات کے مطابق ان نئی چوکیوں پر کام شروع کیاجا رہاہے ۔ وزیر اعلی محمود خان کی نیت اور خواہش اپنی جگہ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اگست کے اوائل میں جب وادی سوات کی تحصیل مٹہ میں سرحد پار افغانستان سے پر اسرار طور پر واپس آنے والے طالبان عسکریت پسند نمودار ہوئے تو انہوں نے پہلی فرصت میں پاک فوج کے دو اعلی عہدیداروں اور ایک پولیس افسر سمیت چار سیکورٹی اہلکاروں کو لگ بھگ بیس گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا۔ اس دوران سول اور پولیس انتظامیہ میں شامل عہدیدار مکمل طور پر گونگے بہرے بنے بیٹھے تھے جبکہ پر اسرار طور پر پہنچنے والے عسکریت پسند بھتہ جمع کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ویسے تو وزیر اعلی محمود خان کے دورہ مٹہ سے قبل انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری نے بھی سوات کا دورہ کرکے دہشت گردی کے دو واقعات کو ذاتی دشمنی یا رقابت کا شاخسانہ قرار دیکر اپنے ماتحت افسران اور فورس کی گلوخلاصی کردی تھی اور پھر واپسی پر معظم جاہ انصاری نے وزیر اعلی کو سب اچھا رپورٹ دیکر انہیں سوات کا دورہ کرنے کی ترغیب کردی ۔ سول انتظامی اور پولیس حکام کا دعوی ہے کہ مبینہ عسکریت پسند واپس چلے گئے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے نہ صرف مقامی بلکہ کئی درجن افغان عسکریت پسند جو اگست کے اوائل میں مبینہ طور پر دیر پائیں کے بن شاہی اور باجوڑ کے سرحدی گزرگاہوں سے پاکستان میںداخل ہوئے تھے ابھی تک مٹہ کے مختلف پہاڑی علاقوں میں موجودہیں تاہم بعض افراد اپنے رہنماوں کے ساتھ آئندہ کے لائحہ عمل طے کرنے کے لئے صلاح مشورے کے لئے سرحد پار افغانستان گئے ہیں کوئی بھی اس جغرافیائی حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا کہ سوات کی سرحدیں کسی بھی طور پر افغانستان کے ساتھ ملحق نہیں 2015 سے لیکر اب تک پاکستان نے امریکی مالی و تکنیکی تعاون سے پاک سرحد پر ایک ایسی خاردار باڑ لگوایا ہے جس سے پرندہ بھی نہیں گزر سکتا ۔ ان حالات میں سرحد پار افغانستان میں روپوش عسکریت پسندوں کے لئے اس خاردار باڑ کو عبور کرنا اور سوات پہنچنا باعث حیرت ہے اگر واقعی وزیر اعلی محمود سمیت خیبر پختونخوا کے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اور ممبران پارلیمان صدق دل سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ اور قیام امن چاہتے ہیں تو انہیں آپس میں مل بیٹھ کر ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرناہوگا جس سے اس صوبے کو پچھلی چار دہائیوں سے جاری انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا خاتمہ ممکن ہو