ایڈووکیٹ نصیر اللہ
قارئین، اس ضمن میں حکومت نے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے اور نہ پختون تحفظ موومنٹ نے اس مسئلے پر حکومت کے ساتھ مذاکرات کی مکمل صورتحال پر قوم کو آگاہ کیا ہے۔ حقیقت حال یہی ہے کہ منظور احمد پشتین تمام سیاسی پارٹیوں بشمول حکومتی اور مذہبی پارٹیوں سے مطالبات حل کرنے کے لیے یا سپورٹ لینے کے لیے ملاقات کرچکے ہیں۔ یہاں تک کے آرمی آفیشلز نے بھی ان کے مطالبات کو جائز قرار دیا ہے۔ میں کسی طور پر ہر دو مخالف قوتوں میں کسی کی نیت پر شک کرنے کا مجاز ہوں اور نہ میں اس کی کوئی تردید ہی کرسکتا ہوں، لیکن تقریباً سال ہونے کو ہے اور مطالبات ویسے کے ویسے پڑے ہیں۔ اس لیے ہر دو مخالف قوتوں کی نیت مجھے کنفیوز کر دیتی ہے۔
ذکر شدہ حقائق کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہوگا کہ ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ اپنا کوئی باقاعدہ بیانیہ کتابی یا کسی بھی اور شکل میں واضح کرے۔ پی ٹی ایم کا آئین بنایا گیا، لیکن پھر اس کو منسوخ کیا گیا۔ پی ٹی ایم میں مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا پیمانہ ہوتا ہے؟ کیا پی ٹی ایم کور کمیٹی میں کسی بات پر اتفاقِ رائے کی جاتی ہے؟ کیا سب فیصلے منظور احمدپشتین خود ہی کرتے ہیں؟ ایک بات مقتدر اداروں کی طرف سے البتہ خوش آئند ہے کہ وہ مِسنگ پرسنز کو عدالتوں کے حو الہ کر رہے ہیں، یا بے گناہ ثابت ہونے پر اُن کو اُن کے گھر والوں کے حوالہ کیا جا رہا ہے۔ کچھ علاقوں جیسے سوات، دیر اورباجوڑ وغیرہ میں کئی ایک چیک پوسٹوں پر نرمی دکھائی دے رہی ہے۔ راؤ انوار کے خلاف بھی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔ وزیرستان میں مائنز کی صفائی کسی حد تک ہوچکی ہے، لیکن حکومت کو باقی ماندہ مسائل کو حل کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔اس قسم کے تاریخی ظلم اور جبرکے اذیت ناک مراحل کو ختم کرانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
یاد رہے پی ٹی ایم کے مطالبات اگرچہ واضح ہیں لیکن ان کے حل ہونے میں کئی حقائق بطور رکاوٹ کھڑے ہیں،جن سے مسئلہ طول پکڑ رہا ہے۔ مذکورہ مطالبات میں وزیرستان کے علاوہ دوسرے ضلعوں اور ڈویژنوں کے اپنے دیرینہ مطالبات بھی شامل ہیں۔ تحریک کے روحِ رواں منظور احمد پشتین نے دوسرے ضلعوں کے مسئلوں کے حل بابت پی ٹی ایم کے کارکنان سے وعدے کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے مطالبات کی فہرست میں ایزادگی ہوئی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ تحریک بادی النظر میں ان ایزادگی شدہ مطالبات پر بھی نظر رکھے ہوئی ہے۔ تاہم کسی پلیٹ فارم سے ان ذکر شدہ مطالبات کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ اگر دیگر ضلعوں کے مزید مطالبات بھی ہوں، تو پی ٹی ایم لیڈر شپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کو سامنے لے آیا جائے۔
قارئین، قانون تو یہ ہے کہ کسی کو ایک جرم میں دو مرتبہ سزا نہیں دی جاسکتی، مگر یہاں صورتحال کچھ اور ہے۔ عسکری ادارے جب کسی شخص کو چھوڑ دیتے ہیں، تو پولیس کو ان کو اُسی جرم میں دوبارہ پکڑ لیتی ہے۔ ملزم سالوں ایک ادارے کے پاس رہتا ہے، اس کے بعد دوسرا تلخ دور شروع ہوتا ہے۔ پھر تیسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ معاشرے میں آتا ہے۔ وہاں پر لوگ اس کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں اور ان کو گناہگار سمجھتے ہیں۔ اگر ایک مرتبہ کسی شخص کو کسی جرم میں کوئی ادارہ پکڑ لیتا ہے، اور پھر اسے چھوڑ دیا جاتا ہے، تو چاہیے کہ دوبارہ اس کو دوسرے ادارے نہ پکڑیں، لیکن نہیں! افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قانون اس کے برعکس ہے۔
عالمی طاقتیں بھی ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پی ٹی ایم کسی کی آلہ کار یا کارندہ تحریک ہے، یا پھر بغاوت کے لیے راہ ہموار کر رہی ہے۔ اب تک عدم تشدد کی راہ پر گامزن پی ٹی ایم قابلِ تقلید مثال قائم کر چکی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی ایم کو استعمال کرنا آسان ترہے، مگر اب تک تو کوئی ایک بھی ثبوت اس کے استعمال کرنے کا کسی کے پاس نہیں۔
قارئین، بیرونی دنیا میں جتنے پختونخواہ وطن کے باسی کام کرتے ہیں، مثال کے طور پر امریکہ، کنیڈا، برطانیہ، جرمنی، سکاٹ لینڈ، دوبئی وغیرہ ان میں ایک بڑی تعداد ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ کے سپورٹرز کی شکل میں موجودہے، اور باقاعدہ طور پر وہاں ان کی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ مذکورہ تنظیمیں وقتاً فوقتاً اظہار یکجہتی کے لیے بیرونی ممالک میں پاکستانی ایمبیسیز اور اقوام متحدہ کے دفتروں کے سامنے پی ٹی ایم کے حق میں مظاہرے کرتی رہتی ہیں۔ پی ٹی ایم کو مختلف مراحل میں چندے وغیرہ بھی بھیجتی رہتی ہیں۔ تاہم ان چندوں بارے حقائق اب تک طشت از بام نہیں ہوئے۔ چندے کہاں سے آتے ہیں اور کہاں پر یہ لاکھوں اور کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور کون اس کا رکھوالا ہے؟ اگر تو یہ کسی خاص شخص یا اشخاص کے ساتھ اکھٹے اور امانت کے طور پر رکھے جاتے ہیں اور کسی خاص مقصد جیسے جلسے، جلوس اور مظاہروں پر خرچ ہوتے ہیں، تو پھر تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر ان چندوں کا کوئی آمد و برآمد کنندہ شخص یا اشخاص معلوم نہیں، تو پھر لازمی بات ہے (خدا نخواستہ) پھر پی ٹی ایم پر شک کی گنجائش موجود ہے۔ اس لیے ان مذکورہ حقائق کو قوم کے ساتھ شیئر کرنا ضروری امر ہے ۔
اب ہونا کیا چاہیے کہ جب مطالبات بالکل واضح ہیں اور ان میں کسی تردد کی گنجائش موجود نہیں۔ مطلب کسی سے ڈھکا چھپا کچھ نہیں، لیکن اگر پھر بھی اس میں کوئی مطالبہ یا مذکورہ ایزاد شدہ مطالبات ریاست کے قانون و آئین کے ساتھ متصادم ہوں، تو اس صورت پی ٹی ایم کے زعما کے ساتھ مکالمہ کرنا چاہیے اور اس نسبت ریاست اورپی ٹی ایم کو مذکورہ مطالبات پر نظرِ ثانی کرکے جلد ازا جلد اس کے لیے حل نکالنا چاہیے۔ خاکم بدہن کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور حالات حکومت کے ہاتھوں سے نکل جائیں۔