نذیر احمد بشیری 

  ضلع سوات کی حسین وادی میں جمعہ (27 جون 2025ء) کو ایک افسوس ناک اور دل دہلا دینے والا حادثہ پیش آیا۔ سیر و تفریح کی غرض سے آنے والے دو خاندانوں کے 15 افراد دریائے سوات کے بے رحم پانی کی نذر ہوگئے۔ یہ افراد دریائے سوات کے بیچ ایک عارضی خشکی پر موجود تھے اور موسم کی خنکی اور دل کش مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اچانک تیز بارشوں کے نتیجے میں دریا میں طغیانی آگئی۔ پانی کا بہاو اس قدر شدید تھا کہ یہ افراد اپنے مقام پر محصور ہو کر مدد کے لیے پکارتے رہے، لیکن امدادی انتظامات نہ ہونے کے باعث وہ تیز موجوں میں بہہ گئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، چند افراد کو زندہ بچا لیا گیا، تقریباً 12 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں، جب کہ باقی افراد تاحال لاپتا ہیں اور ان کی تلاش کا عمل جاری ہے ۔
یہ سانحہ نہ صرف ایک خاندانی المیہ ہے، بل کہ ہمارے اجتماعی رویے، سرکاری اداروں کی غفلت اور عوامی شعور کی کمی کا نوحہ بھی ہے۔ دریائے سوات کے کنارے، بالخصوص تفریحی مقامات پر، ہوٹلوں اور آبادیوں کی بے ہنگم تعمیرات، حکومتی اعلانات تک محدود رہنے والے احتیاطی اقدامات اور سیاحوں کو خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے موثر نظام کا فقدان ایسے سانحات کو جنم دیتے ہیں۔ خاص طور پر، بعض ہوٹلوں نے دریا کی دل کشی کو کاروبار کا ذریعہ بناتے ہوئے اس کے بیچ میں خطرناک مقامات پر بیٹھنے کی عارضی جگہیں، جیسے چارپائیاں، میزیں اور کرسیاں لگا دی ہیں، جہاں مہمانوں کو ناشتا پیش کیا جاتا ہے۔ یہ عمل معمول بنتا جا رہا ہے اور متعلقہ انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، جو بہ ذاتِ خود غفلت کا ایک بڑا ثبوت ہے ۔
سوات کے عوام اس سے پہلے بھی 2010ء اور 2022ء کے سیلابی سانحات کا سامنا کر چکے ہیں جن میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور اربوں روپے کی املاک تباہ ہوئیں۔ اس کے باوجود ہم نے ان سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہر سانحے کے بعد محض تعزیتی بیانات، ہم دردی کے کلمات اور وقتی شور شرابا سننے کو ملتا ہے، جب کہ عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم خوابِ غفلت سے جاگیں، کیا اب بھی مزید جانوں کا ضیاع درکار ہے تاکہ ہم بیدار ہوں……؟
متاثرہ خاندانوں کے حوالے سے مقامی ذرائع نے بتایا کہ یہ دونوں ملن سار، خوش باش اور متحد خاندان تھے، جس میں بچے، نوجوان، خواتین اور بزرگ شامل تھے۔ وہ لوگ جو چند گھنٹے قدرتی نظاروں کے سائے میں گزارنے آئے تھے، اُنھیں کیا خبر تھی کہ دریا کی یہ مسکراہٹ اچانک ایک ہول ناک آفت میں بدل جائے گی۔ ان کے بچوں کے سکول بیگ اب خالی پڑے ہوں گے، گھر کے برتن خاموش ہوچکے ہوں گے اور ماں باپ کی آنکھیں منتظر اور پُرنم ہوں گی۔
عینی شاہدین کے مطابق، جیسے ہی پانی بلند ہوا، یہ افراد چیختے چلاتے رہے۔ موبائل فون پر ویڈیوز بنائی گئیں اور کالز کی گئیں، لیکن تیز بہاو، شور اور دوری نے ان کی آوازوں کو مدھم کر دیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ 1122 ریسکیو والوں کو بروقت اطلاع دی گئی تھی، مگر وہ کافی دیر بعد پہنچے۔ پہنچنے کے بعد بھی اُن کے پاس ضروری آلات کی عدم موجودگی نے اُنھیں صرف کنارے پر کھڑا تماشائی بنا دیا۔ اگر ان کے پاس کشتی، رسی یا دیگر ضروری ساز و سامان ہوتا، تو بیش تر افراد کو زندہ بچایا جاسکتا تھا۔ ایسے میں جنھوں نے ہمت دکھائی، وہ مقامی لوگ تھے۔ اُن میں کچھ ایسے جوان بھی شامل تھے، جنھوں نے ماضی میں بھی دریا میں ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچایا تھا۔ وہ تربیت یافتہ نہیں تھے، اُن کے پاس نہ ریسکیو آلات تھے، نہ کشتیاں، لیکن جذبہ اور احساس تھا۔ حکومت کو چاہیے کہ ان افراد کو پہچان کر ان کی صلاحیتوں کو ریاستی سطح پر تسلیم کرے، انھیں تربیت دے اور لائف گارڈ کے نظام میں شامل کرے۔
ریسکیو سسٹم کی صورتِ حال ایک الگ سوالیہ نشان ہے۔ ریسکیو ٹیمیں کچھ دیر میں پہنچیں، لیکن بنیادی سامان کا فقدان تھا اور مقامی رابطہ اور منصوبہ بندی کا شدید فقدان نظر آرہا تھا۔ اگر پہلے سے دریاؤں کے آس پاس ریسکیو اسٹیشن قائم ہوتے، کشتیاں، لائف جیکٹس، خطرے کے سائرن یا وارننگ سسٹم، یا کم از کم وائرلیس ہیلپ لائنز موجود ہوتیں، تو شاید زیادہ جانیں بچائی جا سکتیں۔
ماحولیاتی تبدیلی اس نوعیت کے حادثات میں پس منظر میں رہ کر اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ بارشوں کا غیر متوقع اور بے ترتیب سلسلہ، برفانی تودوں کا قبل از وقت پگھلنا اور دریا کی سطح میں اچانک اضافے جیسے عوامل قدرتی آفات کو مزید خطرناک بنا رہے ہیں۔ ماہرین بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ پاکستان ان ماحولیاتی خطرات کی زد میں ہے، مگر پالیسی ساز اب بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ خوازہ خیلہ پُل کے ساتھ محکمۂ موسمیات نے ایک ’’ہائیڈرولوجیکل سسٹم‘‘ نصب کیا ہوا ہے، جو دریائے سوات کے بہاو میں اُتار چڑھاو کی بروقت اطلاع محکمۂ موسمیات اور دیگر اداروں کو دیتا ہے۔ چوں کہ دریائے سوات میں طغیانی اُس مقام پر نہیں، بل کہ 50 سے 60 کلومیٹر بالائی علاقوں سے نیچے آئی تھی، اس لیے کم از کم دو گھنٹے قبل مینگورہ میں الرٹ جاری ہو سکتا تھا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محکمۂ موسمیات نے الرٹ جاری کیا؟ اگر کیا تو کیا اُس پر عمل درآمد کروایا گیا؟ اگر نہیں، تو یہ کس کی ذمے داری تھی؟
میڈیا کو بھی اس تناظر میں اپنا کردار مزید موثر بنانا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہونے سے ہم دردی کی ایک لہر ضرور اُٹھی، لیکن مین اسٹریم میڈیا پر اس سانحے کی گہرائی سے تجزیہ نہیں کیا گیا۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ ان موضوعات کو عارضی بریکنگ نیوز سے نکال کر تحقیقی صحافت کا حصہ بنائے، تاکہ یہ واقعات پالیسی پر اثر انداز ہو سکیں۔
ہوٹل انتظامیہ کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دریا کے کنارے بعض ہوٹلز اور ریستوران بغیر کسی منصوبہ بندی کے بنائے گئے ہیں۔ نہ ان کے پاس انخلا کے راستے ہیں، نہ مہمانوں کو خطرے سے آگاہ کرنے کا کوئی نظام۔ خاص طور پر بعض ہوٹلوں نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے دریائے کے بیچ عارضی چارپائیاں، میزیں اور کرسیاں لگا رکھی تھیں، جہاں وہ مہمانوں کو ناشتا کرواتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ ایسے ہوٹلوں کے خلاف اقدامات کرے اور تمام ہوٹلز کے لیے حفاظتی ہدایات، تربیت یافتہ عملہ اور ایمرجنسی سسٹم کو لازمی قرار دے اور خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے۔
اس افسوس ناک سانحے کے بعد صرف ہوٹل انتظامیہ کو موردِ الزام ٹھہرانا کافی نہیں۔ محکمۂ موسمیات، صوبائی ادارہ نظمِ آفات (PDMA)، 1122 ریسکیو ادارہ اور ضلعی انتظامیہ سب کے سب برابر کے ذمے دار ہیں۔ ان سب پر مکمل اور غیر جانب دار تحقیقات کی جائیں اور ذمے داران کو ایسی سخت اور نظر آنے والی سزا دی جائے جو دوسروں کے لیے مثال بنے۔ یہ سزا محض فائلوں تک محدود نہ رہے، بل کہ اس کے اثرات عوامی سطح پر بھی دکھائی دیں۔
اب وقت ہے کہ حکومت محض اعلانات پر اکتفا نہ کرے۔ دریائے سوات کے ساتھ ساتھ دیگر سیاحتی مقامات پر بھی مستقل بنیادوں پر لائف گارڈ تعینات کیے جائیں، اُنھیں پیشہ ورانہ تربیت دی جائے اور جدید ترین آلات مہیا کیے جائیں۔ اُن لائف گارڈز کو قانونی تحفظ، اختیارات اور ایمرجنسی ایکشن پلان دیا جائے، تاکہ وہ کسی بحران میں صرف تماشائی نہ بنیں۔
ہر ضلع میں ایک مربوط ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان تیار کیا جانا چاہیے، جس میں ہنگامی مشقیں باقاعدہ بنیادوں پر ہوں۔ اسکول، کالج، ہوٹل، اور مقامی کمیونٹیز میں آگاہی ورک شاپس کروائی جائیں، تاکہ ہر فرد کو معلوم ہو کہ ہنگامی صورتِ حال میں کیا کرنا ہے اور کیسے اپنی جان و مال کی حفاظت کرنی ہے۔ ہر علاقے میں مقامی زبان میں متعلقہ فون نمبرز سمیت ایمرجنسی مواد تیار کیا جائے اور یہ ہدایت نامے ہر ہوٹل، پُل، دریا کنارے بورڈز پر آویزاں کیے جائیں۔
آخر میں، حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ اس سانحے کی مکمل، غیر جانب دار تحقیقات کرائیں۔ اس تحقیق میں ضلعی انتظامیہ، پی ڈی ایم اے، ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (EPA)، اراکینِ اسمبلی، ماحولیاتی ماہرین، مقامی رضاکار، ہوٹل مالکان، صحافی، وکلا، سول سوسائٹی کے افراد اور سوات یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی سوات اور انجینئرنگ یونیورسٹی سوات کے پروفیسرز اور ریسرچرز کو شامل کیا جائے۔ مقررہ مدت میں رپورٹ مکمل کر کے عوام کے سامنے پیش کی جائے اور اس پر مبنی عملی ایکشن پلان ترتیب دیا جائے ۔
اس تحقیق سے اخذ شدہ سبق آموز نکات (Lessons Learned) کو دستاویزی شکل میں شائع کیا جائے اور سیاحوں، ہوٹلوں اور عوام میں اس کی تقسیم یقینی بنائی جائے، تاکہ مستقبل میں کوئی اور ماں اپنے بیٹے کو، بہن اپنی بہن کو، یا شوہر اپنی شریکِ حیات کو یوں بہتے نہ دیکھے۔
یہ واقعہ نہ صرف سوات، بل کہ پورے ملک کے لیے ایک سخت تنبیہ ہے۔ اگر ہم نے اَب بھی نہ جاگا، تو آنے والے سانحات ہماری کوتاہیوں پر مہر ثبت کرتے رہیں گے۔ یہ سانحہ ہماری بے حسی، ناقص نظام اور غیر فعال حکومتی پالیسیوں کی ایک زندہ مثال ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سنجیدہ ہو کر اجتماعی اصلاح کی طرف قدم بڑھائیں۔ سوات کا یہ واقعہ صرف مقامی یا وقتی دکھ نہیں، بلکہ ایک قومی چیلنج ہے ، جس کا مستقل حل صرف سنجیدہ اور سخت عملی اقدامات میں ہی مضمر ہے ۔