پشاور()خیبرپختونخوامیں بچوں کے تحفظ کے قوانین پرعملدرآمدنہ ہونے کے باعث لاکھوں بچے جبری مشقت کرنے اوربھیک مانگنے پرمجبور ہیں۔ 3سال قبل صوبائی حکومت نے کمسن بچوں کی جبری مشقت پر پابندی کے قانون کی منظوری دی تھی۔ قانون کے مطابق صوبے میں کم عمر بچوں کے ہوٹلوں، ورکشاپس، سی این جی سٹیشنز،بھٹوں اور دیگر مقامات پر جبری مشقت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ قانون کے مطابق کمسن بچوںکو تحفظ فراہم کرنے اور ان سے جبری مشقت لینے والوں کے خلاف کارروائی کیلئے صوبائی سطح پر 8رکنی رابطہ کمیٹی اور اضلاع کی سطح پر کمیٹیوں کا قیام عمل میں لانا تھا تاہم قانون کی منظوری کے تین سال بعد بھی کمیٹیوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا۔ محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں5سے16سال تک عمر کے 18لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں غربت کی شرح49فیصد تک پہنچنے کے باعث سکولوں سے باہر بچوں میں سے15لاکھ سے زائد بچوںسے مختلف مقامات پر جبری مشقت لی جا رہی ہے جبکہ سکولوں سے باہر 3لاکھ سے زائد بچے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے 2011ء میں خیبر پختونخوا چائلڈ اینڈ ویلفیئر کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث یہ بند ہونے کے قریب ہے جبکہ گزشتہ 4سال سے چائلڈ اینڈ ویلفیئر کمیشن کے چیف کا عہدہ بھی خالی پڑا ہوا ہے جس پر تقرری عمل میں نہیں لائی جا رہی۔
پختونخوامیں لاکھوں بچے جبری مشقت کرنے اوربھیک مانگنے پرمجبور
