اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینٹ کمیٹی نے ملک بھر میں بجلی کی چوری روکنے کیلئے علمائے کرام کی مدد لینے اور ان مساجد کو چار سو یونٹ مفت بجلی فراہم کرنے کی تجویز دی ہے جن کے آئمہ کرام بجلی چوری کے خلاف فتویٰ جاری کریں گے تاہم دوسری طرف علمائے کرام اور عام شہریوں کی طرف سے اس تجویز پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔یونیورسٹی روڈ پشاور پر واقع مشہور مسجد سپین جماعت کے مہتمم ارباب ضیاء اللہ نے حکومتی تجویز کی مکمل طور پر حمایت کی ہے۔انھوں نے کہا کہ دیگر چوریوں کی طرح بجلی کا بل ادا نہ کرنا یا غیر قانونی طریقے سے کنکشن لینا بھی ایک چوری ہے اور جس طرح اسلام میں چور کی سزا ہے وہی سزا بجلی چور کی بھی ہے۔انھوں نے کہا کہ کمیٹی کی طرف سے چار سو یونٹ مفت بجلی دینے کی جو تجویز دی گئی ہے اس سے لالچ یا رشوت کی بو آتی ہے لہٰذا اس طرح نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے لوگ علمائے کرام پر بھی سوالات اٹھائیں گے۔لیکن دوسری طرف سپین جماعت مدرسے میں زیرتعلیم ایک طالب علم عابد اللہ نے کہا کہ بجلی قومی دولت ہے اور اس کی چوری کرنا ایسا ہے جسے پوری قوم کے حق پر ڈاکہ ڈالنا۔ انھوں نے کہا کہ چار سو یونٹ بجلی مفت دینا کوئی رشوت نہیں ہے کیونکہ یہ بجلی امام کو نہیں بلکہ مسجد کو مل رہی ہے اور مسجد تو اللہ کا گھر ہے اس کا بل ویسے بھی نہیں ہونا چاہیے۔ٹائون بازار کے ایک چھابڑی فروش حامد اللہ نے کہا کہ مساجد کو چار سو یونٹ مفت بجلی دینا رشوت ہے ۔نئے پاکستان میں تو رشوت ختم کرنے کی بات کی گئی تھی اگر اس پر عمل ہوتا ہے تو یہ تو پھر وہی پرانا پاکستان ہوا۔یونیورسٹی روڈ پشاور کے ایک دکاندار محمد زہیب نے کہا کہ یہ ایک اچھی تجویز ضرور ہے لیکن بظاہر اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جس نے بجلی چوری کا مزہ لیا ہوا ہے وہ کیونکر کسی عالم دین کے کہنے پر بجلی چوری بند کرے گا۔