ساجد علی سالارزئی
میڈیکل کے خواہشمند کئی سارے طلبہ کو دیکھا جو اس بار ناکام ہوئے۔ ان کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے۔ کچھ رو رہے تھے اور کچھ حالِ دل چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ کئی کی حالت بگڑ گئی تھی۔ ایک اپنی ناکامی پر اور دوسرا یہ کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
یہ دنیا کا قانون ہے کہ جب آپ ناکام ہوجاتے ہیں، تو اکثر لوگ خاص طور پر رشتہ دار دل ہی دل میں خوش ہو جاتے ہیں۔ کچھ نصیحت کرنے لگ جاتے ہیں، تو کچھ غصہ کرنے۔ کچھ لوگ بس خاموش تماشائی بن جاتے ہیں اور کچھ کا آپ کی کامیابی یا ناکامی سے کچھ واسطہ نہیں ہوتا۔ کچھ پیٹ پیچھے مذاق اُڑاتے ہیں، تو کچھ آپ کو موضوعِ بحث بنا دیتے ہیں۔ کچھ لوگ ویسے ہی کنایتاً الفاظ کے انبار لگا دیتے ہیں۔ اس موقع پر کچھ لوگوں کی باتیں دل کو چھوتی ہیں اور کچھ کی باتیں ہوا میں اُڑ جاتی ہیں۔ کچھ لوگ کچھ کہتے ہوئے بھی کچھ کہہ نہیں پاتے جب کہ ان میں سے کچھ ’’کچھ‘‘ کہنے کی آڑ میں کچھ ’’زیادہ‘‘ ہی کہہ جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی باتیں تو انسان بھول جاتا ہے، مگر کچھ باتیں بھلائے نہیں بھولتیں۔ کچھ لوگوں کی باتیں ناقابلِ برداشت ہوتے ہوئے بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ کچھ باتیں بھلانے میں زمانہ بیت جاتا ہے، مگر آدمی انہیں بھول نہیں پاتا۔ کیوں کہ وہ انسان کی عزت اور احساسات کو مجروح کر جاتی ہیں۔
میری والدین سے گزارش ہے کہ خدارا! اپنے معصوم بچوں کی زندگیوں سے نہ کھیلیں۔ وہ بھی انسان ہیں۔ ان کی بھی اپنی کچھ خواہشات ہوتی ہیں۔ اکثر طلبہ انہی باتوں سے تنگ آکر ڈپریشن کے مریض بن جاتے ہیں اور بات زندگی سے منھ موڑنے تک آجاتی ہے۔
بعض والدین بلا وجہ ضد پکڑتے ہیں کہ بس میرے بیٹے کو ڈاکٹر بننا ہے۔ والدین بچوں کو تعلیم یافتہ ضرور بنائیں، مگر تعلیم ان پر مسلط نہ کریں کہ بعد میں وہ تعلیم کو بوجھ سمجھ کر اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیں۔ ان کو ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا کچھ تو اختیار دیں۔ ان کو حوصلہ دیں۔ بلا وجہ تنگ کر کے ان کی زندگی کو اجیرن نہ بنائیں۔ ان طلبہ کو مخاطب کر نا پڑرہا ہے کہ ڈاکٹر بننا کامیابی ہے، لیکن نہ بننا ناکامی نہیں۔ ناکامی کامیابی ہی کی پہلی سیڑھی ہے۔ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر گرتے تو سب ہیں، لیکن منزلیں ان کا انتظار کرتی ہیں جو گر کر سنبھل جائیں۔ ٹھوکر کھا کر گرنے کے بعد سنبھلنے اور دوبارہ اٹھنے کو کامیابی کہتے ہیں اور سنبھلتے وہی ہیں جو منزلوں کے خطرات و مشکلات کو ٹالنے کا ہنر جانتے ہیں۔
میرے بھائیو! یہ دنیا ہنسنے والے کے ساتھ چلتی ہے اور رونے والے کو تنہا چھوڑ دیتی ہے۔ یہاں کامیابی ایسے ہی نہیں ملتی، یہاں کامیاب بننا پڑتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ناموں پر غور کریں، تو ان میں بمشکل آپ کو ڈاکٹر نظر آئیں گے۔ یہ دنیا اکیلے ڈاکٹرز نہیں چلا رہے،بے دھڑک کسی دوسرے شعبہ کا انتخاب کریں۔ اگر ہمت و حوصلہ پہ قابو رکھا، تو کل یہی لوگ آپ کی کامیابی کی داستانیں سنائیں گے، تو بس پڑھتے رہیے اور آگے بڑھتے رہیے۔