ہارث بٹ
کالام سے مہوڈنڈ جانے کے لئے آپ کو آسانی سے پانچ ہزار تک کی جیپ مل جاتی ہے۔ اب اصلی سوات شروع ہونےجا رہا تھا۔ جھیل تک جاتے ہوئے راستے میں بہت سی آبشاریں آتی ہیں۔ ان کا پانی اتنا ٹھنڈا ہوتا ہے کہ کچھ سیکنڈز سے زیادہ آپ ان پانیوں میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ شیردل دریائے سوات اب بھی ہمارے ساتھ ساتھ ہی تھا اور اس نے جھیل تک ہمارے ساتھ ہی رہنا تھا۔ وادی سوات کے سلیٹی رنگ اب ہم پر جادو کر رہے تھے۔ ہر دو منٹ کےبعد ایسے مناظر آ رہے تھے کہ بس وہیں رہ جانے کو دل کر رہا تھا مگر ہمیں ابھی مہوڈنڈ جانا تھا۔ راستہ گندا ضرور تھا مگر محفوظ تھا۔ قریبی پہاڑوں سے برف پگھل چکی تھی لیکن ذرا دور کے پہاڑوں پر ابھی تک برف پڑی تھی۔ ذرا تصور کیجئے کہ آپ کے سامنے سبزہ زار سلیٹی پہاڑ کھڑے ہیں اور ان کے پیچھے واقع برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں۔ کبھی وہ چوٹیاں بادلوں میں چھپ جاتی تھیں اور کبھی تیز دھوپ میں چمکنے لگتی تھیں۔ اگر آپ نے یہ مناظر نہیں دیکھے تو آپ کا ان مناظر کو تصور میں لانا ذرا مشکل ہے۔
جھیل کے راستے میں ایک چشمہ آتا ہے جو” آب شفاء ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ بہت پہلے آس پاس کے علاقوں میں ایک بزرگ رہتے تھے۔ وہ ایک بار شدید بیمار ہو گئے۔ بہت جتن کئے مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ ایک رات عشاء کی نماز میں بارگاہ الٰہی میں رو رو کر اپنی صحت یابی کے لئے دعا کی۔ کہا جاتا ہے کہ اسی رات ان کو خواب میں بشارت ہوئی کہ وہ اس چشمے کا پانی جا کر پیئں۔ تبھی سے اس چشمے کا نام آب شفاء پڑ گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق جو شخص بھی دل میں کوئی وہم لائے بغیر وہ پانی پیتا ہے، اسے شفاء ملتی ہے۔ جبکہ بہت سے لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ چشمہ چونکہ بلند و بالا پہاڑوں سے بہتا ہوا نیچے آتا ہے، تو راستے میں آنے والی مختلف جڑی بوٹیوں کے اثرات بھی اپنے ساتھ نیچے تک لے آتا ہے اس لئے اس چشمے کے پانی میں شفاء ہے۔ وہاں سے گزرنے والے بہت سے لوگ رک کر اس چشمے سے پانی پی بھی رہے تھے اور اپنے ساتھ بوتلوں میں پانی بھر کر بھی لے جا رہے تھے۔
شیردل دریائے سوات اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چنگھاڑ رہا تھا کہ اچانک دریا کا شور ختم سا ہو گیا۔ اور ہماری آنکھوں کےسامنے ایک خوبصورت منظر آ گیا۔ یہی جھیل مہوڈنڈ تھی۔
کالام سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جھیل مہوڈنڈ میں مچھلیوں کی بہتات ہے اور اسی لئے اسے مہوڈنڈ یعنی مچھلیوں والی جھیل کہا جاتا ہے۔ تقریباً دو کلو میٹر لمبی اور 1.2 کلو میٹر چوڑی جھیل کشتی رانی کے لئے بھی بہت مشہور ہے ۔ 9400 فٹ بلندی ہونے کے باوجود جھیل پر صبح کے وقت سردی کا احساس نہیں ہوتا مگر رات یقینا ٹھنڈی ہوتی ہو گی۔ جھیل کے کنارے ایک لمبی لائن میں کیمپ لگے تھے۔ جھیل کے کنارے پر رات گزارنے کا بھی اپنا ہی ایک لطف ہو گا مگر ابھی وہ لطف ہمارے نصیب میں نہیں لکھا گیا تھا۔
میرے ذہن میں جھیل کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ میں اپنی زندگی کی پہلی جھیل دیکھ رہا تھا اور یہ جھیل مہوڈنڈ میرے لئے پہلی محبت کی مانند تھی۔ پہلی محبت جس میں آپ کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کیوں ہے؟ کیا ہے ؟ کیسا ہے؟ بس آپ اپنی محبت میں خوش ہوتےہیں۔ ایک الگ ہی دنیا میں ہوتے ہیں۔ میں بھی اس وقت ایک الگ ہی دنیا میں تھا۔ اپنی ” نیلی جھیل ” کے ساتھ تھا۔ جھیل بے زبان تھی اور میں زبان رکھتے ہوئے بھی چپ تھا۔ میں ایک ایسی کائنات میں تھا جو صرف میرے لئےتخلیق کی گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ جھیلیں بھی عورتوں کی طرح ہوتی ہیں۔ آپ جانے انہیں کس روپ میں دیکھتے ہیں، کس رنگ میں نگاہ کرتےہیں۔ یہ صرف اور صرف آپ پر منحصر ہوتا ہے۔ میرے سامنے مہوڈنڈ اس وقت اپنی بہترین شکل میں موجود تھی۔ سورج کی پہلی کرنوں یا ڈوبتے ہوئے سورج کے ساتھ وہ کیسی لگتی تھی۔ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہ تھی۔ مجھے اپنی کائنات میں رہنے کے لئے صرف چند گھنٹے دئیے گئے تھے اور میں ان لمحوں کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں مکمل طور پر اس کے عشق میں کھو جانا چاہتا تھا اور میں کھو گیا تھا۔
جھیلیں عام طور پر پہاڑوں میں گھری ہوتی ہیں۔ محفوظ اور پوشیدہ۔۔ اپنی ذات کی تنہائی میں گم۔ مگر مہوڈنڈ ایسی نہ تھی۔ وہ میری کیفیت سے واقف تھی۔ اس نے اپنے سارے راز مجھ پر کھول دئیے تھے۔ کوئی حجاب نہیں رکھا تھا۔ وہ میرے سامنے عیاں ہو گئی تھی۔ میں مہوڈنڈ کے سبز ٹہرے ہوئے پانیوں میں اترنا چاہتا تھا یا کم از کم اسے ایک بار چھونا چاہتا تھا۔ میں ان پانیوں کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔ ہم سب جلدی سے کشتی میں بیٹھ گئے اور تب پہلی بار میں نے جھیل مہوڈنڈ کے پانیوں میں ہاتھ ڈالا تھا۔ اس نے منجمد کر دینے والی یخ بستگی میں میرا ہاتھ تھام لیا۔ میں اب اس کے اندر تھا۔ اس کے وجود کا ایک حصہ تھا۔ میری سردی اب ختم ہو چکی تھی اور اس کی جگہ ایک نرم آسودہ گرمی نے لے لی تھی۔ اب میں جھیل مہوڈنڈ کے پانیوں میں سانس لے رہا تھا۔
اس جھیل میں بلندیوں سے پانی آبشاروں سے آ رہا تھا۔ میں ان آبشاروں کی اونچائی تک پہنچنا چاہتا تھا۔ ان پہاڑوں سے اوپر بھی کچھ دیکھنا چاہتا تھا مگر اسی لمحے مجھے شفیق الرحمٰن کی ” نیلی جھیل ” کی کچھ سطریں یاد آئی تھیں۔ کہ ” خود فریبی کی نیلی جھیلیں اور دوسرے کنارے عمر بھر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ہم اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو چیز یہاں نہیں ہے وہ وہاں ہے۔
دوسرا کنارہ بس دور سے ہی اچھا لگتا ہے۔ ”
دوپہر کے دو بج رہے تھے اور جھیل پر گرم گرم پکوڑوں کی سوندھی سوندھی خوشبو ہمیں تنگ کر رہی تھی۔ ہم پکوڑوں والے کے پاس ہی بیٹھ گئے اور ساتھ ہی چائے کا آرڈر بھی کر دیا۔ جھیل کنارے ان پکوڑوں کا لطف اور گرما گرم چائے اور سامنے برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ، سب کچھ ناقابل بیان حد تک دلفریب تھا۔ ہماری چارپائی کے پاس ہی ایک کرسی پر ذرا پکے سے رنگ کے ایک انکل بیٹھے تھے۔ وہ بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ جھیل پر لاہور سے آئے تھے۔ ان کو دیکھ کر مجھے شدید ترین خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ اس عمر میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ آئے تھے۔ وہ انکل جن کا یقیناً کچھ کچھ نام بھی ہو گا۔ لاہور میں گورنمنٹ سرونٹ تھے اور ان کے ساتھ آنے والے ان کے جونئیر کولیگز۔ ان کے ساتھ بڑی زبردست گپ شپ رہی۔
میں۔ ” سر آپ کی بیوی آپ کو تنگ نہیں کرتی کہ دوستوں کے ساتھ کیوں جا رہے ہیں؟ اس نے لڑائی نہیں کی آپ سے ؟ ”
وہ انکل جن کا کچھ نام بھی تھا، (مسکراتے ہوئے)۔ ” دو دن ہمارے گھر میں لڑائی رہی ہے اور ابھی بھی جب میں گھر سے نکل رہا تھا تو وہ مجھ سے ناراض تھی کہ آپ دوستوں کے ساتھ نکل جاتے ہیں۔ ہمیں کبھی نہیں لے کر جاتے۔ ”
محبوب سے بچھڑنے کا وقت اب قریب آ رہا تھا۔ مگر میں اداس بالکل بھی نہ تھا کہ جھیلوں کے ساتھ ابھی میری محبت شروع ہوئی تھی۔ ابھی مجھے عشق میں بہت آگے جانا تھا۔ مجھے ایک ہی دوارے پر ماتھا ٹیک کر نہیں بیٹھنا تھا۔ ہم سب نے خوشی خوشی ” نیلی جھیل ” کو الوداع کہا اور واپس کالام کی طرف چل پڑے۔
ہماری جیپ مسلسل سفر کی وجہ سے کافی گرم ہو چکی تھی۔ ہم دریائے سوات کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ایک مقام پر جہاں سڑک ذرا چوڑی تھی، ایک سروس اسٹیشن بنا ہوا تھا۔ ڈرائیور نے جیپ وہیں کھڑی کر دی۔ وہاں ایک چھوٹا سا پکنک اسپاٹ بھی بنا ہوا تھا۔ اور ذرا پرے ہو کر دریا کنارے تین چار لکڑی کے بینچ بھی پڑے تھے۔ دریا چنگھاڑتا ہوا وہاں سے گزر رہا تھا۔ سامنے مگر دور ایک برف سے ڈھکا ہوا پہاڑ کھڑا تھا اور اس کے آگے درختوں سے گھرے ہوئے بہت سے چھوٹے چھوٹے سلیٹی پہاڑ کھڑے تھے۔ میں دریا کنارے پڑے پتھروں پر بیٹھ گیا۔ دریا کا شور حہاں آپ کو ڈراتا دھمکاتا ہے وہیں آپ پر ایک رومانس اور دکھ کے ملے جلے جذبات بھی طاری کرتا ہے۔ میں ایک پتھر پر بیٹھا مسلسل اس برف پوش پہاڑ کو دیکھ رہا تھا مگر میرے کان دریا کی چنگھاڑ پر اور پاؤں پانی کے اندر تھے۔ ایک عجیب سی موسیقی میرے کانوں میں میٹھا رس بھر رہی تھی۔ اچانک میرے دائیں جانب ایک صاحب نمودار ہوئے اور بولے۔ ” تُسی ایتھے وی آ گئے او۔ ” اور ہم دونوں بچوں کی طرح زور زور سے ہنسنے لگے۔ یہ وہی جھیل والے انکل تھے جن کا کوئی نام بھی تھا۔ اور ان کے بوٹ بالکل میرے بوٹوں جیسے تھے۔ واپسی پر ہمیں بہت دیر ہو چکی تھی ورنہ ہمارا ارادہ اوشو جنگل جانے کا بھی تھا۔ اوشو جنگل کا راستہ اوشو کے علاقے سے ہی نکلتا ہے۔ اوشو کے پل کے نیچے دریائے سوات چیختا ہوا گزرتا ہے اور اس چیخ میں اضافہ پل کے نیچے پڑٰی ہوئی ایک بڑی چٹان کر دیتی ہے۔ آپ جب بھی مہوڈنڈ جائیں تو واپسی ذرا جلدی کر لیں اور کوشش کر کے اوشو جنگل ضرور جائیں۔
ہمارے کالام واپس پہنچنے تک شام کی ہلکی ہلکی سرخی پھیل رہی تھی۔ سب لوگ ہی ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ اس ٹھنڈ کو دور کرنے کے لئے دریا کنارے کھانے کے بعد بون فائر کا پلان تھا۔ جولائی کے مہینے میں آگ بہت سکون دے رہی تھی۔ دریا کنارے بیٹھ کر ذرا بھی اندازہ نہ ہو رہا تھا کہ ہم پنجاب کی کس قدر گرمی سے اٹھ کر آئے تھے۔ یہاں پھر میں نے اپنے صبح والے تجربے کو دوہرایا تھا مگر اس بار میری آنکھیں دہکتی ہوئی آگ پر تھیں اور کان دریا کی چنگھاڑ پر۔ یہ بھی ایک عجیب قسم کا تجربہ تھا۔ آپ جب بھی کسی ایسے علاقے میں جائیں جہاں پانی بہت تیز ہو۔ وہاں یہ تجربہ ضرور کر کے دیکھیں۔
اگلے روز ہمارے گروپ کی واپسی تھی مگر مجھے اور خذیفہ کو مینگورہ پہنچ کر گروپ کو خدا حافظ کہہ دینا تھا۔ مینگورہ پہنچ کر ہم ٹورسٹ سے سیاح ہو ہو گئے تھے۔
مینگورہ اورکالام دونوں ہی وادی سوات میں واقع ہیں مگر دونوں کےموسم میں بہت فرق ہے۔ مینگورہ اور سیدو شریف سے چند کلومیٹر کے فاصلے پرخوبصورت وادی مرغزار میں سفید محل واقع ہے۔ مینگورہ شہر سے آپ رکشے میں بیٹھ کر آسانی سے محل تک جا سکتے ہیں ۔یہ محل اس وقت کی ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودود نے 1941ء میں تعمیر کروایا۔ محل کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سفید ماربل کی وجہ سے اسے سفید محل کا نام دیا گیا۔ یہ ماربل خصوصی طور پر آگرہ سے لایا گیا تھا۔ یہ محل سطح سمندر سے تقریباً سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ والی سوات، ملکہ الزبتھ، فیلڈ مارشل ایوب خان اور دیگر کئی شخصیات کے قیام کی وجہ سے اس کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ محل میں دو بڑے کانفرنس ہال ہیں جو اس وقت کی کابینہ کے اجلاس کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ بائیں جانب وزیروں اور مشیروں کی رہائش کے لئے چھ کمرے ایک بلاک میں تعمیر کئے گئےتھے۔ والی سوات کی دونوں بیویوں کے لئے تین تین کمرے اور تین کمرے خادموں کے لئے، ہر ایک کے لئے علیحدہ صحن جس میں سنگ مرمر کے بنچ بنوائے گئے تھے۔ لیکن اب یہاں والی سوات کی چند ایک تصویریں اور ایک دو بندوقوں کےسوا کچھ بھی نہیں۔ صوبائی حکومت اس کی قصور وار ہے کہ وہ والی سوات کی رہائش گاہ اور سامان کو قومی ورثہ کے طور پر محفوظ نہ کر سکی۔ رہائش گاہ پر اب ایک ہوٹل بن چکا ہے۔ اگر آپ باہر سے آ رہے ہیں تو برآمدے میں بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں۔