ایڈووکیٹ نصیراللہ
قارئین، کون ہے جو اداروں میں بے جا طور پر بھرتیوں اور ٹرانسفر کرنے کے لیے نااہل اور بونے افراد کو داخل کرتا ہے؟ ضرورت اور نااہلی کی آڑ لے کر پوسٹ تخلیق کرتا ہے اور اس کا قانونی جواز بناتا ہے۔ یہ ایک واضح اور سادہ سی بات ہے۔ ہونا تویہ چاہیے کہ جس ادارے کو جو کام قانون کی اجازت دیتا ہے، ادارے وہی کام کرے، لیکن نہیں۔ دوسرے اداروں کے کام اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال ہمارے اداروں کا ایک طرح سے شیوہ بن چکا ہے۔یہ بات ثابت شدہ ہے کہ کچھ مخصوص ادارے ہیں جو حکومت گرانے اور بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ سول بیوروکریسی اور ملٹری بیوروکریسی کے جس حکمران سے گاڑھی چھنتی ہے، وہی حکمرانی کا اہل ٹھہرتا ہے، ورنہ نہیں۔ بعد میں منتخب شدہ حکمران کی راہ میں اتنی مشکلات حائل کر دیے جاتے ہیں کہ وہ ان کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ خدارا، اپنے کام سے کام رکھا جائے۔ اداروں کو مضبوط بنانے کی بجائے اس کے پیشہ وارانہ کام میں مداخلت، بگاڑ اور فرائض منصبی میں غفلت کو ہوا دیتی ہے۔ اداروں کے تاخیر میں ڈالے ہوئے ترقیاتی کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے حکومت کی مدد کی جانی چاہیے۔ پارلیمان میں تگڑی اپوزیشن ہی حکومت کو کام کرنے کی تحریک دے سکتی ہے۔
مگر ہوتا کیا ہے، پارلیمان میں کسی بھی ضروری مسئلہ کو اتنا کھینچا جاتا ہے اور اتنا سیاست زدہ کیا جاتا ہے، پسند و نا پسند کی فہرست علیحدہ طور پر رکھی جاتی ہے کہ کوئی بھی کام دہائیاں گزرنے کے بعد آخرِکار پالیسی پر متفق ہوا جاتا ہے۔ صرف تضحیک کرنا اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنا، بے معنی لابنگ کیا یہی پارلیمانی سیاست ہے؟ چاہے کوئی اپوزیشن کا کردار ادا کرے یا حکومت میں ہو، دونوں کو قانون سازی اورعوام کی آسانی کے لیے قانون سازی پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ بات بھی ذہن نشین کی جائے کہ صر ف قانون بنانا ہی اہم نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ متعلقہ اداروں کی ٹریننگ اور عوامی آگاہی بھی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے۔ قانون سازی صرف حکومت کا حق قطعی طور پر نہیں۔اس میں اپوزیشن بینچ پر بیٹھا کوئی بھی شامل ہوسکتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیسے معاشی و اقتصادی، خارجہ و داخلہ اوردفاعی پالیسی تشکیل دی جائے، تاکہ مملکتِ خداداد اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے؟ ایک اور سوال سب بڑھ کر ہے کہ کیسے صوبوں کو برابری کی سطح پر حقوق میسر ہوسکتے ہیں؟ اور یہ کہ ہمارے اہداف کیا ہیں؟ کیا ہم ایک انڈسٹریل اور یا زرعی انڈسٹریل ملک بننے جا رہے ہیں؟ ہمارے ملک میں کون سی چیز کی پوٹنشل زیادہ ہے؟ قانونی سقوم کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ اداروں کو کیسے قانون کی تابع لایا جا سکتا ہے؟ کچھ پتا ہے کہ ترقی کے پانچ سالہ اوردس سالہ اہداف کیسے مقر ر ہوتے ہیں؟ سیاسی اور معاشی بے چینی کو ختم کیے بغیر قانون کی حکمرانی ناممکن ہے۔ کس طرح ترقی کے اہداف حاصل ہوسکتے ہیں؟ اصول یہ ہے کہ اس کے لیے دوشمنوں سے بھی یارانہ کرنا پڑتا ہے۔ ماضی کے کوڑے دان میں ہاتھ ڈالا جائے گا، تو ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ہاں، البتہ گندگی، غلاظت اورگلی سڑی ہوئی چیزیں ہی ہاتھ آئیں گی۔ ماضی کے کوڑے دان سے کوئی خوشنما چیز نکل آئے گی، اس کی بہت ہی کم رکھنی چاہیے۔
چیف آف آرمی سٹاف کا کہنا ہے کہ معاشی کمزوری کی وجہ سے روس ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا۔ ایٹم بم اس کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ آج وزیر اعظم معاشی بہتری کے لیے مختلف ممالک کے دورے کر رہے ہیں۔ ملک میں سرکاری اہلکاروں کو تنخواہیں دینے تک کی رقم موجود نہیں۔دہشت گردی اور بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ خاکم بدہن ا گر یہی صورتحال رہا، تو ملک چلنے سے رہا۔
قارئین، ایک بات توصاف ہے کہ یہ ملک کسی طور پر مزید دوسروں کے چندے، امداد اور قرضوں پر نہیں چل سکتا۔ اس کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو مل کر زمینی حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے ادراک کرنا ہوگا۔ پرانے اور نامعقول تمام قوانین کو دفن کرکے چھٹکارا حاصل کرناہوگا ۔ ترقیاتی اہداف کوسامنے رکھ کر دور رس نتائج والی پالیسیاں ہی قوم و ملک کوحالیہ بھنور سے نکال سکتی ہیں۔ مگر یہ تب ممکن ہوگا جب عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی ہوگی۔
ترقیاتی اہداف سماجی اور معاشی پالیسی (گذشتہ سے پیوستہ)
