اسلام آباد(ایجنسیاں،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالت کیس میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم پرمشتمل 3 رکنی بینچ نے8اکتوبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ابتدائی طور پر مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا اور ٹرائل کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر آسیہ بی بی کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں فوری رہا کیا جائے۔بعد ازاں عدالت کی جانب سے 57 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیاجو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے الگ اضافی نوٹ تحریر کیا۔عدالت کی جانب سے دیے گئے تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا گیا جبکہ اس میں قرآنی آیات اور احادیث کا ترجمہ بھی تحریر کیا گیا۔چیف جسٹس نے عدالتی فیصلے میں کہا کہ یہ قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ دعویٰ کرنے والے کو الزامات ثابت کرناہوتے ہیں، لہٰذا یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقدمے کی سماعت کے دوران شک کے بجائے ملزم پر الزامات ثابت کرے تاکہ کسی بے گناہ کو سزا نہ دی جائے۔چیف جسٹس نے فیصلے میں مزید کہا کہ مدعی کی جانب سے مبینہ توہین مذہب کے الزام میں پیش کردہ ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ استغاثہ شک و شبہ سے بالاتر ثبوت پیش کرنے میں یکسر ناکام رہا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر گواہان کا رویہ معاندانہ تھا تو اس کافائدہ ملزمہ کو ملے گا اور شک کبھی ثبوت کے متبادل نہیں ہوسکتا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ توہین رسالت ایک سنجیدہ نوعیت کا جرم ہے، اگر شکایت کنندہ نے آسیہ بی بی کے مذہب کی توہین کی تو یہ بھی توہین مذہب میں آتا ہے۔اضافی نوٹ میں انہوں نے تحریر کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام پر جھوٹ بولنا بھی کم توہین نہیں،قرآن پاک کہتا ہے کہ سچ کو جھوٹ سے نہ ملایا جائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیت کے ماننے والوں کی حفاظت کا حکم دیا تھا لیکن اسلام کے پیروکاروں نے اس حکم پر عمل نہیں کیا۔انہوں نے تحریر کیا کہ اس مقدمے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے عیسائیت کے ماننے والوں سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کی گئی، گواہان کے مطابق مسلمان خواتین نے آسیہ بی بی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی اور گواہوں کے بیانات اور شہادتوں میں تضادات ہے جبکہ مقدمے کا مدعی قاری محمد سلام واقعہ کا چشم دید گواہ نہیں۔دوسری جانب آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوتاہیوں کے باوجود اس ملک میں غریب، اقلیتوں اور نچلے گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں کو انصاف مل سکتا ہے اور آج کا دن میری زندگی کا سب سے بڑا اور خوشی کا دن ہے۔فیصلے کے بعد آسیہ بی بی نے بذریعہ فون اے ایف پی کو بتایا کہ مجھے یقین نہیں ہورہا کہ میں کیا سن رہی ہوں، کیا میں باہر جاسکتی ہوں؟ کیا واقعی یہ لوگ مجھے باہر لے کرجائیں گے، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میںکیا کہوں، میں بہت خوش ہوں۔آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ میں اور میرے بچے بہت خوش ہیں اور ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور ججوں کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمیں انصاف دیا۔یادرہے کہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں 19 جون 2009 کو ایک واقعہ پیش آیا جس میں آسیہ بی بی نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیا جس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے آسیہ پانی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگا سکتیںجس پر دونوں میں جھگڑا ہو گیااورآسیہ کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین نے الزام لگایا تھا کہ آسیہ بی بی نے پیغمبر اسلام کی شان میں نازیبا کلمات ادا کیے ہیں۔اگلے سال ٹرائل کورٹ نے اس مقدمے پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کو سزائے موت دی۔سال 2014 میں آسیہ بی بی کی لاہور ہائی کورٹ میں اپیل مسترد کر دی گئی اور سزائے موت کا فیصلہ برقرار رہا جس کے بعد انھوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔سال 2016 میں اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں شروع ہونی تھی لیکن بینچ پر موجود ایک جج نے اپنی شمولیت سے معذرت کر لی۔اس سال اکتوبر آٹھ کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی تین گھنٹے طویل سماعت کی جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔آسیہ بی بی کی رہائی کے لیے دنیا بھر سے اپیلیں ہوئیں،ماضی میں پنجاب کے گورنرسلمان تاثیر کو آسیہ مسیح کی حمایت میں بیان دینے پران کے گارڈ ممتاز قادری نے قتل کیا تھا کہ اوربعدازاںممتازقادری کوپھانسی دیدی گئی تھی۔فیصلے کے ابتدائی حصے میں عدالت نے قرآن و حدیث اور آئین پاکستان کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ مذہب اور پیغمبر اسلام کی توہین کی سزا موت یا عمر قید ہے۔یہ بات ثابت کرنے کے بعد عدالت نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ اس جرم کا غلط اور جھوٹا الزام بھی اکثر لگایا جاتا ہے۔عدالت نے مشال کیس اور اکرم مسیح کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے اٹھائیس برس میں ایسے 62 افراد کومقدمات کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا جن پر توہین مذہب یا پیغمبر اسلام کی توہین کا الزام لگایا گیا تھا۔عدالت نے اس بارے میں لکھا ہے کسی کو حضرت محمدۖ کی توہین کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی جرم کو سزا کے بغیر چھوڑا جا سکتا ہے لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے بعض اوقات کچھ مذموم مقاصد کے حصول کے لیے قانون کو انفرادی طور پر غلط طریقے سے استعمال کرتے ہوئے توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا دیا جاتا ہے۔تفصیلی فیصلے میں عدالت نے ایوب مسیح کیس کی بھی تفصیل درج کی ہے۔ایوب مسیح پر توہین عدالت کا الزام اس کے ہمسائے محمد اکرم نے لگایا تھا۔ یہ واقعہ 1996 میں پیش آیا اور ملزم کو گرفتار کر لیا گیا لیکن اس کے باوجود علاقے میں عیسائیوں کے گھر جلا دیے گئے اور عیسائی برادری کو جو چودہ گھروں پر مشتمل تھی، گائوں چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ملزم ایوب کو سیشن عدالت میں گولی مار کر زخمی کر دیا گیا۔ بعد میں اس پر جیل میں دوبارہ حملہ ہوا۔ مقدمہ جب ختم ہوا تو ایوب مسیح کو مجرم قرار دے کر موت کی سزا سنا دی گئی۔ عدالتِ عالیہ نے سزا کی توثیق کی البتہ اپیل کی سماعت کے دوران یہ واضح ہوا کہ دراصل شکایت کنندہ اس کے پلاٹ پر قبضہ کرنا چاہتا تھا جس پر ایوب اور اس کے والد رہائش پذیر تھے اور یوں ملزم کو مقدمے میں پھنسا کر وہ اس کے سات مرلے کے پلاٹ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔عدالت عظمیٰ نے ملزمہ کی اپیل منظور کرنے اور استغاثہ کا مقدمہ مسترد کرنے کے حق میں جو دلائل دیے ہیں ان میں اہم نکات یہ ہیں۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ملزمہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں پانچ دن کی تاخیر کی گئی جس سے شک ہوتا ہے کہ اس دوران اپیل کنندہ کے خلاف ایک منظم سازش تیار کی گئی۔اس کے علاوہ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ جب مدعی سے پوچھا گیا کہ اس ایف آئی آر کے لیے درخواست کس نے تحریر کی تو اس نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی آر کے لیے درخواست ایک وکیل نے لکھی تھی جس کا نام انہیں یاد نہیں۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ استغاثہ کے گواہوں کی جانب سے حقائق کی جو تفصیل بتائی گئی ہے اس میں تضاد پایا جاتا ہے جس سے استغاثہ کی ساری کہانی مشکوک ہو جاتی ہے۔اسی طرح جائے وقوعہ کے بارے میں بیانات تبدیل ہوتے رہے۔ اسی طرح مدعی قاری محمد سلام نے بھی اپنے بیانات میں ردوبدل کیا۔ کہیں بتایا گیا کہ پانچ مرلے کے مکان میں 100 لوگ جمع تھے، کہیں یہ تعداد 1000 بتائی گئی کہیں 200۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ان سارے بیانات سے اس کہانی میں جو شکوک پیدا ہوتے ہیں ان میں یہ طے نہیں ہو سکا کہ اس واقعے کے بارے میں مدعی کو اطلاع کس نے دی؟ عدالت نے کہا ہے کہ یہ تضادات استغاثہ کی جانب سے بتائے گئے حقائق کی صداقت پر شک پیدا کرتے ہیں اور اصول اور قانون کی رو سے اس شک کا فائدہ اپیل کنندہ کو لازماً پہنچنا چاہیے۔ عدالت کے مطابق استغاثہ کی ساری کہانی اس کے دو گواہوں اور آسیہ بی بی کے عدالت سے باہر دیے گئے اقبالی بیان کے گرد گھومتی ہے جبکہ موجودہ عدالت اس اقبال جرم کو اہمیت نہیں دے سکتی کیونکہ اس کے بارے میں گواہوں نے یہ تفصیل نہیں بتائی کہ یہ اقبال جرم کس وقت، کہاں اور کس طرح کیا۔سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ آسیہ بی بی کا اس مقدمے کی چشم دید گواہ خواتین کے ساتھ پانی نہ پلانے کے معاملے پر جھگڑا ہوا تھا جو ملزمہ کے خلاف اس مقدمے کی اصل وجہ بنا۔