ایڈووکیٹ نصیراللہ
سوچنے کی بات ہے کہ ایک طرف ریاست ’’تحریکِ لبیک یا رسول اللہ!‘‘ کے ساتھ راضی نامہ کرتی ہے اور دوسری طرف انہی مذکورہ راضی نامہ کی شقوں کی مخالفت پر بھی اتر آتی ہے۔ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ حکومت راضی نامہ پر مجبور ہوتی ہے؟ جس دن سپریم کورٹ نے آسیہ مسیح کی بریت کا فیصلہ قرآنی اصولوں کو مدنظر رکھ کر کیا، اسی دن سے مذکورہ تحریک نے ملک کے تمام صوبوں میں احتجاجی مظاہرے شروع کیے۔ چوکوں، بازاروں اورموٹر ویز کو بند کیا۔ اسی روز وزیر اعظم کا بیان آیا اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن اور آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی بات کی گئی۔ دوسرے دن احتجاج مزید زور پکڑتا ہے اور تقریباً تمام پاکستان میں احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں جب کہ وزیر اعظم چین یاترا پر چلے جاتے ہیں۔ شائدچین کا دورہ حکومت کی مجبوری تھا۔ پارلیمنٹ میں بحث ہوتی ہے۔ حکومت مذکورہ تحریک سے مذاکرات پر مجبور دکھائی دیتی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین کے ساتھ مسئلہ پر گفت و شنید ہوتی ہے اور ان کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اسی روز احتجاج کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کے پانچ دور کیے جاتے ہیں۔ احتجاج کے دوران میں عدالتِ عالیہ اور فوج پر ہرزہ سرائی کی جاتی ہے۔گالی گلوچ کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور فوج کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیں۔ عوامی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ بہرحال حکومت اسی روز مذہبی شدت پسندوں کو روکتی دکھائی دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی اپیل دائر کردی جاتی ہے۔ یوں راضی نامہ مذکورہ اور نظرِ ثانی اپیل میں آسیہ مسیح کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی استدعا کی گئی۔آخری متضاداطلاعات آنے تک آسیہ مسیح بیرونِ ملک چلی گئی ہے۔ تاہم حکومت نے آسیہ مسیح کے ملک باہر جانے کے بیان کو رد کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ محفوظ مقام پر موجود ہے۔ آسیہ مسیح کا یہاں رُکنا میں سمجھتا ہوں، خدا نہ کرے کسی انہونی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ گورنر سلمان تاثیر والی بات ابھی کل ہی کا واقعہ لگتی ہے۔کس طرح ان کو اپنے گن مین کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
قارئین، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے دلوں میں رچی بسی ہے۔ ان سے محبت ہمارے ایمان کا لازمی حصہ ہے، بلکہ ان کی محبت کے بغیر کوئی شخص مسلمانی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اب اگر کوئی مسلمان جو کہ اسلام کو اپنا دین مانتا ہو اور اس آڑ میں دینِ اسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اشارے کنائے، تحریری اور یا زبانی طور پر بے حرمتی یا توہین رسالت کرتا ہو، تو کسی عام فرد کے کمپلینٹ پر عدالت ہی اس کوC-295 تعزیراتِ پاکستان کے تحت سزا دینے کی مجاز ہے۔ کوئی عا م فرد اگر بغیر ثبوت اور شواہدکے اور یا ثبوت اور شواہد کے ساتھ کسی ایسے شخص کو سزا دینے کا سوچتا ہے، تووہ فرد یا افراد قانونی طور پر مجرم بن جاتے ہیں۔ کسی ایسے شخص یا اشخاص کی مذکورہ توہین آمیزی کے خلاف عدالتی کارروائی کرنا عین قانونی امر ہے۔ نیز اگر کوئی غیر دین توہین کا مرتکب ہو، تو بھی اس کو صرف عدالت ہی کے ذریعے سزا دلوائی جاسکتی ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص توہینِ رسالت کا مرتکب ہو، تو اس کو کس طرح قانونی طریقے سے سزا دی جا سکتی ہے؟اگرعام افراد اس کو سزا دینے پر اتر آئیں، تو شائد دشمنی نکالنے کے لیے کوئی بھی شخص زندہ نہ رہے اور شائد ہی کوئی اس الزام سے بری الذمہ ہو۔ کیوں کہ تمام فرقے ایک دوسرے کو کافر گردانتے ہیں۔ ایک دوسرے کی روایات کو من گھڑت تصور کرتے ہیں۔ ان کی عبادات میں بھی کافی فرق ہے۔ متحارب فرقے بھی ایک دوسرے پر توہین کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ ہاں، یہ الگ بات ہے اگر ان فرقوں کا کسی چیز پر اتفاق ہے، تو وہ صرف قرآنِ پاک کی کتاب ہے۔ اس لیے قرآنِ پاک کے ذریعے سے ان تمام مسئلوں اور فرقوں میں اتفاق رائے بنایا جاسکتا ہے۔
قارئین، اب حل کیا ہوسکتا ہے؟ کیا بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی مصائب کو حل کرنے کے لیے مکالمہ کو فروغ دیا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے اور اس کا معیار صرف فطری انصاف، عقلی اور سائنسی توجیح پر ہے۔ نظریاتی و فکری اعتبار سے مکالمہ کے ذریعے ہی کسی کو کسی نظریہ کی طرف راغب یا اس کا مخالف کیا جاسکتا ہے۔ آپ دھونس، دباؤ اور زبردستی کرکے وقتی طور پر اپنی بات منوا سکتے ہیں، لیکن کسی کے ذہن و دل میں کوئی جگہ نہیں بناسکتے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے دین اور خدا کو برا بلا کہیں گے، تو لا محالہ وہ آپ کے اچھے دین اور خدا کو برا بلا کہے گا۔ دوسری طرف اگر آپ کسی کو کافر اور جہنمی کہیں گے، تو اس کے دین اور مذہب کے حساب سے آپ کافر اور ملحد قرار پاسکتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی اور مذہبی امور، ثواب اور گناہ میں اتھارٹی اور سزا اور جزا کا اختیار صرف خدا تعالیٰ کی ذات تک محدودہو۔ وہی کسی نیک یا برے کام کا اجر یا سزا دینے کا سزاوار ہے ۔باقی رہا ہمارا دین تو بھائی ہمارادین ہم کو استقامت، برداشت،معافی اور صبر کا درس دیتا ہے اسلئے انسان ہونے کے ناطے انسانیت کا درس دینا سیکھ لیا جائے اور دوسروں کے نظریوں کا احترام کرنا پیش نظر ہو۔ بھلے ہی آپ کسی سے متفق ہوںیا نہ ہوں۔ (جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔