ایڈووکیٹ نصیراللہ
حقیقت کو لاکھ پردوں میں چھپایا جائے، آخرِکار سامنے آہی جاتی ہے۔ شکر ہے کچھ لوگوں کو میڈیائی حقیقت کا احساس ہو ہی گیا۔ ”بلیک آؤٹ“ تک تو بات ٹھیک تھی، لیکن یہاں سرِ عام جھوٹ پر جھوٹ بولا گیا۔ یہ سلسلہ بہت آگے جاتا نظر آرہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ زرد صحافت کا علم بردار میڈیا ملک کو کسی بھنور کی نذر کر دے۔ بدنامی کس کی ہوگی؟ یہ راز اب پوشیدہ نہیں رہا۔ حکومت ہوش سے کام لے اور آرمی کو سویلین علاقوں سے واپس بلالے۔ عالمی طور پر پاکستان اور اس کے اداروں کی بدنامی ہو رہی ہے۔ علاقے جب کلیئر ہوجائیں، تو مزید وہاں پر آرمڈ فورسز کے رہنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ کام حکومت کا ہے کہ جس طرح ان کو بھیجا گیا تھا، اسی طرح واپس بھی بلایا جائے۔
قارئین، ہمارا میڈیا دوغلے پن کی انتہا پر ہے۔اب ہر ایک شخص کے پاس موبائل ہے۔ سوشل میڈیا نے تو مین سٹریم میڈیا کا گھناؤنا چہرہ سب کے سامنے واضح کر دیا ہے۔ پی ٹی ایم کو مزید کسی قسم کی صفائی کی ضرورت نہیں۔ اس کو بس اپنے مطالبات پر فوکسڈ رکھنا چاہیے۔ دوسری اور اہم بات، اس کے مطالبات میں پہلی دفعہ ایزادگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اب اس میں وزیرستان اور قبائلی علاقوں سے فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ شامل ہوچکا ہے۔
علی وزیر اور ان کے ساتھیوں کو دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ان کو آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ پر لیا جاچکا ہے۔ محسن داوڑ کے بقول سویلین کیجولٹیز 13 تک پہنچ چکی ہیں۔ چالیس پینتالیس افراد ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ علی چوں کہ ایم این اے ہیں، اس لیے اس کی گرفتاری کے بابت آئینی طور پر سپیکر قومی اسمبلی سے اجازت درکار ہوتی ہے، لیکن نہ تو اجازت لی گئی اور نہ قومی اسمبلی کو مبینہ گرفتاری کے بابت مطلع ہی کیا گیا۔ باوجود اس کے میڈیا اور دوسرے ذرائع پر وزیرستان واقعہ کی رپورٹس آچکی تھیں، لیکن اسپیکر صاحب نے آئین کے کسٹوڈین ہونے کے ناتے معزز رکن اسمبلی کے پرڈاکشن آرڈر جاری نہ کرتے ہوئے کھلی لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔ اس سے مملکت خداداد میں اب مقدس پارلیمنٹ کی حیثیت سب پر واضح ہوچکی۔
پی ٹی ایم کے بڑوں نے سانحہئ وزیرستان اور فوجی انخلا کے لیے نامعلوم وقت تک دھرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ عالمی طور پر احتجاجوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ اس واقعے میں ثالث کا کردار کرے، نہ کہ اس میں فریق بنے۔ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ 72 ہزار شہدا کا معاملہ ہے۔ ”اربوں ڈالرز“ اور دہشت گردی کی جنگ میں شریک ہونے کا معاملہ ہے۔ جب آپ پرائی جنگ میں کودیں گے، تو لازمی طور پر اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑیں گے۔
یاد رہے، پی ٹی ایم کو حکومت یا کسی ادارے نے کالعدم تنظیم نہیں گردانا۔ اس کے مطالبات جینون ہیں۔ ان کو عسکری افسروں اور حکومت نے بھی آئینی مانا ہے۔ واپسی کا کوئی راستہ اس میں نہیں بنتا۔ ضد اور انا چھوڑنا ہوگی۔ الزام لگانا آسان ہوتا ہے، لیکن اس کو ثابت کرنا ایک کٹھن کام ہوتا ہے۔ پچھلے سال سے لے کر پی ٹی ایم پر را اور این ڈی ایس سے مبینہ طور پر مدد لینے کا الزام ہے۔ ریاست اس مد میں کوئی ٹھوس ثبوت تاحال نہیں پیش کرسکی۔ ریاست کے پاس وسائل، ادارے اور مشینری ہوتی ہے۔ اگر کوئی ملک دشمن عمل موجود ہے، تو اس کو سامنے لانا چاہیے۔ صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہونے والا۔ متذکرہ الزامات ریاست کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اپنی ناکامی کا ملبہ دوسروں پر گرانا ناکامی کو چھپا نہیں سکتا۔ ہوش سے کام لیا جائے۔ کیچڑ اچھالنے سے کچھ چھینٹے اچھالنے والے پر بھی پڑا کرتے ہیں۔