ساجد ابوتلتان
پختونخوا اور خاص کر شمالی پختونخوا کی زمین ادب، تاریخ، تہذیب، تمدن اور ثقافت کے حوالے سے خاصی زرخیز ہے۔ یہاں مقامی اور بین الاقوامی لکھاریوں نے مختلف زاویۂ نگاہ سے تاویلات، تحلیلات اور تجزیے کرکے بہت کچھ سپردِ قلم کیا ہے، جس کی وجہ سے عمرانیات، بشریات، آثارِ قدیمہ، تاریخ، ادب، زبان، لسانیات اور جغرافیہ وغیرہ کی تخلیقی و تحقیقی کتابیں ہر جگہ دستیاب ہیں۔
اس حوالہ سے وکیل خیرالحکیم حکیم زئی کتاب ’’دغہ زمونگ کلے دے‘‘ اگر اپنی نوعیت کی وجہ سے نایاب نہیں، تو کم یاب ضرور ہے۔ مارکیٹ میں نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ مصنف نے اس کتاب کو افغان نیشنل پارٹی کی طرف سے شائع کیا تھا اور پارٹی کے مرکزی صدر ہونے کی حیثیت سے آپ نے اس کو تحفوں کی شکل میں بلامعاوضہ بانٹ دیا ہے۔
’’دغہ زمونگ کلے دے‘‘ نامی221 صفحات پر مشتمل پشتو زبان کی اس تحقیقی کتاب کا آغاز 1997ء کو ہوا اور 1998ء تک یہ مکمل بھی ہوئی۔ بعد ازاں شمسؔ کی کتابت میں 2004ء کو یہ شائع ہوئی۔ کتاب پر مصنف یا کسی اور کا دیباچہ رقم نہیں کیا گیاہے۔ البتہ عدنان کاکڑ کا لکھا ہوا ایک پیراگراف کتاب کی پشت پر ضرور موجود ہے۔
اس کتاب کی کئی خوبیاں ہیں، مثلاً کتاب کا متن پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نام کا ماخذ کیا ہوتا ہے، ناموں کے اجزائے ترکیبی کا عمل کس طرح کیا جاتا ہے، کسی نام کا ایک زبان سے دوسری زبان میں تبدیل ہونے کا کلیہ کیا ہے، مرکب ناموں کے سابقہ و لاحقہ کا الگ الگ تجزیہ کن اصولوں پر ممکن ہے؟ نیز معنوی تغیرات، الفاظ کو یکجا کرکے مرکب معنی نکالنا، لفظوں کے زمانی و مکانی سفر میں مختلف زبانوں کے لہجہ کا فرق اور ایک لفظ کا معمولی فرق کے ساتھ مختلف زبانوں میں استعمال زبان اور لسانیات کی ایسی مہارتیں مصنف کے عمیق مطالعہ اور اَن تھک محنت کا مظہر ہیں۔
اس طرح پختونخوا اور خصوصاً سوات کے دیہات، شہروں، دریاؤں، پہاڑوں اور دروں وغیرہ کے نام پُرانی تہذیبوں کے تناظر میں لسانی بنیاد پر واضح ہوجانا اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
عدنان کاکڑ کہتے ہیں: (ترجمہ) ’’سوات اور گرد و نواح کے گاؤں کے ناموں سے متعلق اس تحریر کو ہم ’’وجۂ تسمیہ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ جس سے مختلف جغرافیائی خطوں کے خدوخال تاریخی، تہذیبی اور تمدنی پس منظر سامنے آتا ہے۔‘‘
مصنف نے اپنی تحقیق میں آریاؤں کی زبان سنسکرت اور ساتھ ساتھ ہندی زبان کے ناموں سے واضح کیا ہے کہ یہاں کسی زمانے میں ہندو مت اور اُس کے بعد بدھ مت تہذیبیں انتہا پر تھیں۔ اِن مذاہب نے لمبے عرصے تک مقامی لوگوں پر اپنا اثر چھوڑا ہے۔
مختلف ناموں کے حوالے سے مصنف کے بے لاگ تجزیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا مذاہب اور اُن کی تہذیبوں نے اس علاقے کے چپے چپے پر نام کی صورت میں اپنے اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ بقولِ عدنان کاکڑ’’مصنف کے خیال میں یہ تمام نام ہندومت، بدھ مت، یونانی، ایرانی اور دیگر تہذیبوں کا ورثہ ہیں، جن میں زیادہ تر نام بدھ مت تہذیب یا سنسکرت زبان سے مربوط ہیں۔‘‘
مصنف کی اس رائے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پختونخوا اور خصوصاًسوات کو گندھارا تہذیب کا علاقہ شمار کرتے ہیں۔ دوسری طرف ناموں کی وضاحت سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مصنف ’’پشتونوں کا تعلق آریاؤں سے ہے‘‘ کے نظریہ پر قائم ہیں۔ وہ ناموں کی توضیح میں زیادہ تر مذاہب اور عبادت گاہوں کا حوالہ دیتے ہیں، جس سے یہ علاقہ اپنی شان دار مذہبی روایات کا آئینہ دار معلوم ہوتا ہے اور جس کی ہزاروں سال کی تاریخ میں نسل در نسل منتقل ہونے والے مادی و غیر مادی اثرات عصرِ حاضر میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ اس با ت کا اندازہ ہماری نفسیات، تاریخی و تمدنی آثار اور خاص کر توہمات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے اور ایک بڑا ثبوت پشتونوں کا ہر زمانے میں مذہب سے وابستہ ہونا بھی ہے۔
ناموں کے تجزیوں میں جا بجا قلعہ جات، چھاؤنیوں اور جیل خانوں کا ذکر کیا گیا ہے، جس سے ایک طرف یہ علاقہ تاریخی سلطنتوں کی آماجگاہ معلوم ہوتا ہے، تو دوسری طرف یہاں رونما ہونے والے انقلابات اور مختلف زمانوں میں حملہ آوروں کے حملوں کی بھی نشان دہی ہوتی ہے، جن میں سے ہر ایک نے اس علاقے کی تہذیبی اور تمدنی تاریخ میں اپنے اپنے مذاہب اور زبانوں کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ڈالا ہے اور اکثر و بیشتر باہر کے حملہ آوروں نے اس علاقے کو قبضہ کر کے اس پر حکومت کی ہے۔
اس طرح کتاب میں ناموں کے تجزیوں میں جگہ جگہ ماحول کے بنیادی عناصر کا ذکر موجود ہے۔ پہاڑ، جنگل، دریا، درے، زرخیز زمین اور خاص کر پانی سے متعلق مختلف نام منسوب کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں زمین کی خاصیت، آب و ہوا کی خوبی اور ماحولیاتی فضا کے اشارے بھی ملتے ہیں، جن سے ایک طرف اگر علاقے کا قدرتی حُسن، زمین کی پیداواری صلاحیت اور معتدل ماحول ظاہر ہوتا ہے، تو دوسری طرف اس علاقے کی تاریخی عظمت سے بھی انکار کرنا محال ہوجاتا ہے۔
اس طرح ناموں کے تجزیوں میں تاریخی دروں اور تجارتی راستوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے، جو اس علاقے کے تاریخی پس منظر کی دلیل ہے۔ یہ علاقہ تہذیبوں کے سنگم پر واقع ہے۔ اگرچہ مصنف اپنے تجزیوں میں تاریخی، سماجی اور نفسیاتی حقائق سامنے لاتے ہیں اور اُن کی یہ کتاب تہذیبی، لسانی اور تاریخی حوالوں سے بہت اہم ہے، لیکن اس میں بدھ مت او ر ہندومت کے علاوہ دیگر پرانے مذاہب کے حوالوں کا کہیں بھی ذکر موجود نہیں۔ اس کتاب میں سنسکرت اور ہندی زبانوں کے ناموں، ساتھ ہی ہندی آریائی زبانوں کی تقریباً تمام شاخوں، یہاں تک کہ مقامی بولیوں کا ذکر تو مدلل انداز میں کیا گیا ہے لیکن آریاؤں کے زمانے اور مابعد کے زمانوں میں جیسے دراوڑی یا منڈاری وغیرہ زبانوں کا کہیں بھی پتا نہیں چلتا۔
پھر بھی موجودہ دور کے اکثر جغرافیائی ناموں کی ساخت کو دیکھا جائے، تو مصف کے شواہد اور لسانی دلائل سماجی تاریخ کی روشنی میں سولہ آنے درست معلوم ہوتی ہیں، یعنی مصنف کی محنت اور گراں قدر خدمات، ادب و لسانیات، تہذیب وتمدن اور سماجی تاریخ کے لیے یہ کتاب ایک اہم سرمایہ ہے۔
قارئین، یہ کتاب بے شمار حوالوں سے اپنی مثال آپ ہے۔ اس لیے تو عدنان کاکڑ کہتے ہیں: ’’میرے خیال میں یہ تحقیق بدھ مت کے محققین، تاریخ، تہذیب اور آرکیالوجی سیکھنے والوں کے لیے مفید ثابت ہوگی۔‘‘ جب کہ راقم کے خیال میں زبان ولسانیات کا مطالعہ کرنے اور لغت ترتیب دینے والے حضرات بھی کماحقہ اس کتاب سے مستفید ہوسکتے ہیں۔