ایڈووکیٹ نصیراللہ
قارئین کرام! دنیا میں مسائل کے حل کے لیے مختلف قسم کے طریقۂ کار وضع کیے جاتے ہیں، جن میں سرِفہرست حکومت اپنے قانون اور پالیسی کے ذریعے کسی گروپ یا علاقے کے مسائل کو حل کرنے کا دیرپا حل فراہم کرتی ہے۔ جدید ریاست کا تصور ہی اس لیے دیا گیا ہے کہ اس میں اداراتی طور پر مسائل کا حل بہم پہنچایا جاتا ہے۔ اب اگر ریاست کے ادارے اپنے کام میں کوتاہی کریں، تو دوسرے طریقے کے طور پر عوام عدالتوں سے رجوع کرکے مقدمات کے ذریعے داد رسی کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم یہ ایک لمبا چوڑا اور پیچیدہ مرحلہ ہوتا ہے۔ اس طریقۂ کار کو آسانی سے حل کرنا بہت مشکل بلکہ اکثر اوقات انتہائی مہنگا اور صبر آزما ہوتا ہے۔ پاکستان میں لوگ دعا مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کورٹ، کچہری، اداروں اور ہسپتالوں کی جھنجھٹ سے ہر کسی کو بچائے۔ دراصل یہی وہ جگہیں ہوتی ہیں جہاں پر کسی بھی مہذب معاشرے کے جملہ امور کو حل ہونا ہوتا ہے، لیکن یہاں پر مسئلہ کچھ اور ہے۔ ایک دفعہ جب کسی کا ان اداروں سے واسطہ پڑتا ہے، تو اس کی چیخیں نکل جاتی ہیں اور وہ دوبارہ وہاں جانے سے خدا کی پناہ مانگتا ہے۔ پھر وہ دوسروں8 کو نصیحتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے کہ خدا کسی دشمن کو بھی یہ جگہیں نہ دکھائے۔ اللہ تعالی کسی کو ان خونخوار اداروں میں انسان نما جانوروں کے رویہ سے بچائے رکھے۔
قارئین، اتنے سخت الفاظ شائد ہی کوئی سننا گوارا کرے، لیکن حقیقت شائد اس سے بھی بدتر ہے۔ البتہ روپے پیسے کی طاقت اور اثر و رسوخ یہاں کام کردکھاتی ہے۔ یہاں پر غریب ہر جگہ دھکے کھاتا نظر آتا ہے۔ اس سسٹم کا مسئلہ ہی کچھ اس طرح ہے کہ کس طرح غریب کا خون نچوڑا جائے۔ قانون ساز، قوانین اور پالیسیاں صرف غریب کو پھانسنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بناتے ہیں۔ سچ کو جھوٹ کے پردے میں رکھا جاتا ہے۔ صرف خالی اور کھوکھلے نعروں کے ذریعے عوام الناس کو گمراہ بنایا جاتا ہے۔ نا امیدی مزید جڑیں اس وقت پکڑتی ہے جب اعتماد کی آڑ میں دھوکا ملتا ہے۔ پھر ایسے شخص کو ہر کوئی جھوٹا نظر آتا ہے۔ سسٹم پر سے عوام کا عتماد اُٹھ جاتا ہے۔ عوام کا درد ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔میں سمجھتا ہوں کہ جب ملک کے سرکردہ راہنما ملک کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہوں، تو خاکم بدہن اس طرح ملک کی نیا ڈوبے گی۔ کمی کس چیز کی ہے؟ ہر شے دستیاب ہے۔ کیا یہاں پر محنتی اور مخلص لوگ نہیں ہیں؟ کیا یہاں پر وسائل نہیں ہیں؟ جواباً عرض ہے کہ سب کچھ ہے بس اگر کچھ موجود نہیں، تو وہ مخلص، ایمان دار اور بصیرت کی حامل قیادت ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ یہ نام نہاد حکمران ملکی ترقی میں رکاؤٹ بنے ہوئے ہیں۔ دراصل عوام الناس ملکی ترقی میں اس وقت تک حصہ نہیں لے سکتے، جب تک انہیں ملکی ترقی میں شامل نہیں کیا جاتا۔ یہ غلط ہے کہ صرف ادارے اور حکمران مذکورہ ترقیاتی اہداف سر کرسکتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے کہ صرف حکمران یہی سب کچھ کرسکتے ہیں۔
پاکستان ایک پُرامن ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ اس میں خوشحالی اور ترقی آسکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں بھی کھڑا ہوا جا سکتا ہے، لیکن اگردوسرے ممالک کے مسائل اور پرائی جنگیں لڑنے سے پرہیز کیا جائے اور اپنے عوام کو ترقی کی دوڑ میں شامل کیا جائے، تو یہ اہداف آسانی سے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ میرا ماننا یہ بھی ہے کہ جب تک موروثی سیاست سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاتا، متذکرہ اہداف قطعی طور پر حاصل نہیں ہوسکتے۔
معروض کے حالات اس کے شاہد ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی نا اہلی ثابت ہوچکی ہے۔ یہ درست ہے کہ اصل کرتا دھرتا پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اس کی مرضی اور خواہش کے بغیر کوئی پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا۔ حکمرانوں کے مستقبل کے فیصلے اس کو کرنا ہوتے ہیں۔ تاہم اگر سیاست دانوں میں اہلیت ہوتی اور وہ عوامی مسائل حل کرنے کے قابل ہوتے، تو شائد ان کو مداخلت کا موقع نہ ملتا۔
قارئین، جب سے آزادی ملی ہے، لگتا ہے کہ ہر دور میں آواز آتی رہا ہے کہ ملک داخلی اور خارجی خطرات سے دوچار ہے۔ کسی کو غدار ٹھہرایا گیا، تو کسی کو پابندِ سلاسل کیا گیا۔ ہر وقت یہی آواز دی گئی کہ وطن کے لیے قربانی دینی ہے۔ عام عوام کو ہاتھیوں کی جنگ میں دکھیلا گیا۔ ہاتھ کچھ بھی نہ آیا۔ ایک دھیلے کا بھی فائدہ نہ ہوا۔ خدا کے لیے پڑوسی ممالک سے بیر نہ رکھیں۔ ان کے عوام اور لیڈرز نے اپنے ملک کو کہاں لاکھڑا کیا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟
خدارا! ذرا اس پربھی سوچنا ہوگا۔
قارئین، میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ملکی سلامتی اور بقا سے بے پروا ہوا جائے۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھنی کی ضرورت ہے۔ آپس میں اتحاد و اتفاق اور بھائی چارے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ صوبائی یونٹوں کو اختیارات منتقل کرنا ہوں گے۔ میڈیا اور عدالتوں کو ساتھ ملا کر اس ملک کی بقا، ترقی اور خوشحالی کے لیے تجاویز لینا ہوں گی۔ میرا کامل یقین ہے کہ اگر عدالتیں اپنا کام صحیح طور شروع کریں، تو شائد اس ملک کی تقدیر بدل جائے۔
دوسری طرف مذکورہ ادارے عوام کے ساتھ لے کر بیرونی ممالک کے ساتھ ساتھ تعلقات اور خارجہ پالیسی کے محافظ پر بھی ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں۔ کم ازکم کسی سے معاہدات کرتے ہوئے اپنے مستقبل اور اپنے عوام کے مفادات کاخیال رکھنا ہوگا۔ حکومت کے ساتھ دفاعِ فوج بھی اس کا حق ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ملک کا اصل اور مقتدر طبقہ صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ ہے، تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ سیاست کے ساتھ معیشت، اقتصاد، مواصلات، حاصلات سب کچھ یہی ادارہ تو کنٹرول کرتا ہے۔
قارئین، میں سمجھتا ہوں کہ عوام، کسان اور مزدوروں کو اقتدار اور ترقی میں شامل کیے بغیر ترقی نہیں جا سکتی۔ اگر قانون ساز ادارے ملک کے لیے پالیسیاں درآمد کرتے ہیں، تو وہ اس قابل نہیں ہوتیں کہ وہ معروض کے حالات کے مطابق عوامی اور معاشرتی مسائل حل کرنے کا مداوا ثابت ہوں۔ سمجھنا چاہیے کہ سیاسی اور عوامی بے چینی، امن و امان، دہشت گردی، فرقہ واریت، مذہبی جنونیت کو ختم کیے بغیر اور عوامی تائید اور شمولیت کے بغیر ترقی ہو جائے، ایسا سوچنا بھی محال ہے۔ ہمیں اپنے اہداف مقرر کرنے ہیں اور ان پر عمل کرنا ہے۔ اس کے بعد کہیں جاکر منزل دکھائی دے گی۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!
مسائل کا حل
