روح الامین نایابؔ 
پچھلے دنوں سوات کی ادبی فضاؤں پر نوجوان اُبھرتے ہوئے شاعر بخت زادہ دانشؔ چھائے ہوئے تھے۔ وہ نوجوان نسل کے محبوب اور ہر دلعزیز شاعر ہیں۔ اُسے اس وقت بجا طور پر معروضی اور زمینی حقائق کا نمائندہ شاعر کہا جاسکتا ہے۔ اُس کی خاصیت یہ ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے مصرعوں اور بندوں میں سادہ زبان میں بڑی بات آسانی سے کہہ جاتے ہیں۔ میں اُس کی شاعری کی خصوصیات اور رموز پر پھر کبھی اپنی قلمی آزمائش کروں گا، فی الحال اُس پر ایک خصوصی، اہم اور خوبصورت پروگرام ’’جشنِ دانشؔ ‘‘ کا احوال پیش خدمت ہے۔ 
مورخہ 8 جنوری کو اقراء کالج کانجو میں میلے جیسا سماں تھا۔ ہر شعبۂ زندگی سے جوق درجوق لوگ آئے ہوئے تھے۔ مقامی، غیر مقامی شعرا، اُدبا، معزز مہمان، شہری، طلبہ، دانشور، نوجوان، بوڑھے اور بچے غرض ایک جمِ غفیر سے اقراء کالج کا میدان کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اس پروگرام کے مہمانِ خصوصی تو ڈی آئی جی تھے، لیکن اُن کی ناگزیر مصروفیات کی وجہ سے ایس پی سوات جناب خان خیل صاحب اور ساتھ ڈی ایس پی سٹی حبیب اللہ صاحب اور ڈی ایس پی پیر سید بہ طورِ مہمان خصوصی تشریف لائے تھے۔ اس کے علاوہ شعرا حضرات میں جناب حنیف قیسؔ ، جناب شمس الاقبال شمسؔ ، جناب سعید اللہ خادمؔ ، امجد علی سورجؔ ، طاہر بوستان خیل، روزی خان لیونےؔ اور ظفر علی ناز جیسی ڈھیر ساری محترم شخصیات شامل تھیں۔ اقراء کالج کے طلبہ کی شرکت نے پروگرام کو چار چاند لگائے۔ اس موقع پر سوات کے مشہور کالمسٹ تصدیق اقبال بابو صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ 
جشنِ دانش کے اس خوبصورت پروگرام کو ’’نڑیوال ادبی تڑون‘‘ اور ’’نوے ژوند‘‘ نے ترتیب دیا تھا اور سوات پولیس کے مشترکہ تعاون سے پیش کیا جا رہا تھا۔ یاد رہے کہ ’’نوے ژوند‘‘ کی سماجی خدمات اور منشیات کے خلاف جد و جہد میں شاعر ریاض احمد حیرانؔ سوات میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں جب کہ ساتھ ’’نڑیوال ادبی تڑون‘‘ کے حوالے سے مشہور شاعر فیض علی فیضؔ ، علی خان اُمیدؔ اور اُس کے ساتھی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس یادگار پروگرام کی صدارت اے این پی کے سالار اور بابڑہ خونی واقعے کے عینی شاہد جناب عبدالرحیم کر رہے تھے، جب کہ نظامت کے فرائض ریاض احمد حیرانؔ ، فیض علی فیضؔ اور علی خان اُمیدؔ مشترکہ طور پر ادا کررہے تھے۔ 
پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، ’’جشنِ دانش کیک‘‘ کاٹنے کے لیے بخت زادہ دانشؔ کے ساتھ ایس پی خان خیل، ڈی ایس پی حبیب اللہ اور پیر سید، حنیف قیسؔ اور راقم الحروف کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ بخت زادہ دانش پر مقالہ پڑھنے کے لیے کیڈٹ کالج کے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر بوستان خیل کو دعوت دی گئی۔ طاہر بوستان اعلیٰ تعلیم یافتہ شاعر اور ادیب ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہوں نے بخت زادہ دانشؔ کی ذاتی زندگی اور شعر و شاعری پر ایک علمی اور معلوماتی مقالہ پیش کیا، جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔ پھر تاثرات کے لیے راقم الحروف کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ مَیں نے پروگرام کے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا۔ بخت زادہ دانش کو کتاب کی مبارک باد دی اور اس خوبصورت پروگرام کے پیش کرنے پر ’’نوے ژوند‘‘ اور ’’نڑیوال ادبی تڑون‘‘ کو مبارک باد دی۔ فیض علی فیضؔ نے ایک خوبصورت نظم سنا کر سامعین کے دل موہ لیے۔ اس کے بعد شاعر تیمور الٰہی نے خوبصورت نظم پیش کرکے سامعین سے داد وصول کی۔ مشہور شاعر اور بلبلِ سوات ظفر علی نازؔ نے بخت زادہ دانشؔ پر ترنم میں نظم سنا کر سامعین سے بے پناہ داد سمیٹ لی۔ اس کے بعد تاثرات پیش کرنے کے لیے ایک عالم و فاضل شخصیت ڈاکٹر محمد افضل کو دعوت دی گئی۔ انہوں نے بخت زادہ دانشؔ کی شاعری پر اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا۔ اُس کی شاعری کی انفرادیت کو سراہا۔ نسیم علی نسیمؔ نظم کے حوالے سے اچھے شاعر ہیں۔ انہوں نے بخت زادہ دانشؔ پر اپنا تخلیقی کلام سنا کر سامعین کو محظوظ کیا۔ علاوہ ازیں نسیم علی نسیمؔ نے اپنی ایک مزاحیہ نظم ’’زہ بہ مانیٹر وومہ‘‘ عوام کے پُرزور اصرار پر سنا کر محفل کو زعفران زار بنا دیا۔ اس کے بعد عوام کے لیے شیلڈ اور انعامات تقسیم کرنے کا خوبصورت اور دلچسپ مرحلہ آیا۔ ریاض احمد حیرانؔ نے بخت زادہ دانشؔ کی زندگی اور شاعری کے متعلق سوالات و جوابات کے سلسلے میں بے شمار انعامات اور شیلڈ سامعین میں تقسیم کیے۔ انور عاطرؔ ایک سنجیدہ شاعر ہیں۔ وہ بہت خوبصورت نظم کہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک خوبصورت نظم میں بخت زادہ دانشؔ کی شخصیت اور شاعری کا احاطہ کرکے سامعین سے داد وصول کی۔ انہوں نے بخت زادہ دانش کو نغمہ گر شاعر قرار دیا۔ اے این پی کے مشہور راہنما اور کالمسٹ ابراہیم دیولئی نے اپنے خوبصورت اور دلچسپ تاثرات پیش کرکے دانش صاحب کو کتاب پر مبارک باد دی اور انتظامیہ کا اس شان دار پروگرام کو منظم کرنے پر شکریہ ادا کیا اور اُن سب کی کاوشوں کو سراہا۔ ابراہیم دیولئی نے اعزاز کے طور پر ریاض احمد حیرانؔ ، ایس پی خان خیل اور بخت زادہ دانشؔ کو ہار بھی پہنائے۔
مشہور نظم گو شاعر علی خان اُمیدؔ نے ’’پشتو اتلان‘‘ پر اپنی شان دار یادگاری نظم سناکر سامعین کو بے خود کردیا۔ سامعین نے تالیوں کی گونج میں بار بار داد دی۔ اس کے بعد بابا روزی خان لیونےؔ نے اپنی نظم سے سامعین کو محظوظ کیا۔ مشہور شاعر حنیف قیسؔ نے اپنے تاثرات میں بخت زادہ دانشؔ کو خراجِ تحسین پیش کیا اور اُسے نوجوان نسل کا نمائندہ شاعر قرار دیا۔ انہوں نے بخت زادہ دانشؔ کی سادگی، ملنساری اور اخلاقیات کی تعریف کی اور اُسے کتاب پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دی۔ شمس الاقبال شمسؔ صاحب خود ایک اچھے شاعر، مشہور خوشنویس اور خطاط ہیں۔ وہ ماضی کے مشہور شاعر فیض الرحمان فیضانؔ کے فرزند ہیں۔ انہوں نے بخت زادہ دانشؔ کے حضور ایک ہار بطورِ تحفہ پیش کیا، جب کہ دانشؔ صاحب پر ایک خوبصورت نظم بھی سنائی۔ اقراء کالج کے پرنسپل صاحب کی طرف سے ایس پی خان خیل صاحب اور بخت زادہ دانش کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ’’سوات ادبی الوت‘‘ کے امجد علی سورجؔ اور سعید اللہ خادمؔ کی طرف سے بخت زادہ دانشؔ کو ایک خوبصورت تحفہ پیش کیا گیا جسے دانشؔ صاحب نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ 
بنوں سے آئے ہوئے مہمان الیاس خاموشؔ اور پشاور سے تعلق رکھنے والے شانؔ نے بخت زادہ دانشؔ کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کیے، جب کہ ’’لواری ادبی ٹولنہ‘‘ کے گل محمد وردگؔ نے جشنِ دانشؔ کا انعقاد کرنے پر سواتی عوام کا شکریہ ادا کیا۔ اس دوران میں ریاض احمد حیرانؔ کی جانب سے ایس پی خان خیل صاحب اور بخت زادہ دانش کو ایوارڈز پیش کیے گئے۔ 
اس کے ساتھ ہی مہمان خصوصی ایس پی سوات خان خیل صاحب کو خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ وہ تالیوں کی گونج میں سٹیج پر تشریف لے آئے۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُسے پشتو زبان سے بہت محبت ہے۔ اس لیے وہ پشتو میں ماسٹر کرچکے ہیں۔ انہوں نے اپنے پسندیدہ شعرا میں حمزہ خان شنواری، غنی خان، رحمت شاہ سائل کا ذکر کیا اور خاص طور پر بخت زادہ دانشؔ کی شاعری کو اپنے دل کی آواز قرار دیا۔ انہوں نے منشیات کے خلاف جنگ میں ریاض احمد حیرانؔ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ظلم اور دہشت گردی کے خلاف جہاد میرا خاندانی ورثہ ہے، میں شہید باپ کا بیٹا ہوں اور شہید بھائی کا بھائی ہوں اور اِن شاء اللہ میں اپنے مقصد اور مشن سے کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گا، خواہ اس کے لیے میری جان کیوں نہ چلی جائے۔ سامعین نے کھڑے ہو کر تالیوں کی گونج میں خان خیل صاحب کو داد دی۔ آخر میں بخت زادہ دانشؔ صاحب تالیوں اور استقبالیہ نعروں کے شور میں سٹیج پر تشریف لائے۔ انہوں نے انتظامیہ کا، پورے سوات کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے ریاض احمد حیرانؔ کے منشیات کے خلاف جہادی جذبے کو بہت سراہا اور بہ طور انعام اپنی جیب سے پانچ ہزار روپے پیش کیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عجیب اتفاق ہے کہ میں انگریزی زبان کا پروفیسر ہوں، اس طرح انگریزی سے کماؤں گا اور پشتو پر لگاؤں گا۔ انہوں نے سوات کے عوام کی محبت اور جذبوں کو سلام پیش کیا۔ انہوں نے سامعین کے پُرزور اسرار پر اپنی شاعری کے چند نمونے اپنے مخصوص انداز میں سناکر سب کو محظوظ کردیا۔ سامعین نے بے پناہ نعروں اور تالیوں سے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا۔ بخت زادہ دانشؔ نے اقراء کالج کے پرنسپل اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا جب کہ اقراء کالج کے طلبہ کے لیے اپنے خلوص و محبت کا اظہار کیا۔ پُرتکلف ظہرانے کے بعد اس پُروقار تقریب کا اختتام ہوا اور مہمان ہنسی خوشی رخصت ہوئے۔