ایڈووکیٹ نصیراللہ 
تیسری دنیا پر اگر ایک طرف سیپ "SAP” ورلڈ بینک اور ’’آئی ایم ایف‘‘ کے لاگو کردہ قواعد و ضوابط کے تحت صحت، تعلیم، حفظانِ صحت اور پانی کے نظام کی ترقی کے اخراجات کو کم کرنے کے حوالہ سے روک لگائی جا رہی ہے، تو دوسری طرف افراطِ زر میں بڑھوتری اور مزدوری کی قیمتوں اور اخراجات میں کمی کے علاوہ نظامِ صحت اور اداروں کو گروی رکھ کرترقی پذیر ممالک میں تباہی پیدا کی جاتی ہے۔ اگرایک طرف قومی اداروں کو گروی رکھا جاتا ہے، تیسری دنیا کے وسائل پر قبضہ کیا جاتا ہے یا اس کو عالمی نیشنل کمپنیوں کو بیچ دیا جاتا ہے، تو دوسری طرف ان عوامل کے نتیجے میں روزگار اور گرانی سے عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا جاتا ہے۔ نتائج کے طور پر کسی طرح ان ترقی پذیر ممالک کو سنبھالا دے کر ان کو مزید تباہی سے دوچار کیا جانا اور ان کو غلام بناکر اپاہج بنانا مقصود ہوتا ہے۔ تاکہ اونے پونے داموں ان کے ملکی وسائل کو ہڑپنے کا پروگرام پایۂ تکمیل تک پہنچ سکے ۔
اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ مزدوری کی قیمتوں کو کم کیا جاسکے اور مزدور یونینز پر پابندیاں لگائی جاسکیں۔ اس طرح توانائی کی بچت اور کم خرچ مزدور ہاتھ آنا بھی مقصود ہوتا ہے۔
قارئین، آئی ایم ایف کے ذریعے قرض دار ممالک کے لیے نیو لبرل اقتصادی پالیسیوں کو نافذ کرنے کی خاطر اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے قرض لینے کی پالیسی کو مستحکم کیاگیا ہے۔ یہ ایک طرح سے مغرب کی جیت ہے۔ حالاں کہ ان ممالک میں نظامِ جمہوریت تقریباً فیل ہوچکا ہے۔ ان کو پتا ہے کہ قرض لینے والے ممالک سے سے کوئی منفی ردِ عمل سامنے نہیں آنے والا۔ کیوں کہ اُن کو قرض درکار ہے اور ان غیر ملکی بھیڑیوں کو وسائل اور منڈیوں کی تلاش کی فکر کھائی جا رہی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ملک کی آزادی کو 70, 71 سال ہونے کو آئے ہیں لیکن بجلی پوری ہوسکی اور نہ توانائی کی دیگر ضرورتیں ہی پوری کی جاسکی ہیں، صاف پانی کی قلت ہے،روزگار نہیں ملتا، معیشت دگر گوں ہے، گرانی کی وجہ سے قوتِ خرید کم ہوتی جارہی ہے، سٹاک ایکسچینج میں پانچ فیصد کمی دیکھنی میں آئی ہے، تقریباً تین سو بلین ڈالرز سرمایہ داروں نے نکال لیے ہیں۔ اس حوالہ سے اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ آئندہ چھے مہینوں تک یہی صورتحال رہے گی۔ دفاعی اخراجات آسما ن کو چھو رہے ہیں۔ سرکاری آفیسرز کے لیے تنخواہوں کا انتظام موجودہ وسائل سے ممکن نہیں۔ الغرض جس طرف بھی دیکھا جائے، وہاں کرپشن اور قرض کے پیسوں کو لوٹنے کا پروگرام جاری و ساری ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ حکمرانوں کی عیاشیاں اور افسر شاہی کی کوتاہیاں ان سب مسائل کی وجوہات اور اسباب ہیں۔ اس صورتحال میں کوئی تیار نہیں ہوگا، کہ وہ اپنے مفادات کو داؤ پر لگا ئے۔
دیکھئے، کس طرح اقوام کے وسائل کو بے دردی کے ساتھ لوٹا جاتا ہے۔ مثلاً جب دوسری جنگِ عظیم میں افریقہ کا مسئلہ ان بڑے گدھ نما ترقی یافتہ ممالک کے سامنے آیا، تو انہوں نے ڈھٹائی کے ساتھ اسے ’’خوش نما کیک‘‘ سے تشبیہ دی۔ معاہدۂ بالفور کے توسط سے مشرقِ وسطی کے ممالک کے خام تیل کی پیداوار کو لوٹا گیا۔ اوپیک اور دوسری کمپنیوں کے توسط سے ارزاں نرخوں کے ساتھ اپنی ملکی توانائی کی ضرورت کو پورا کیا گیا۔ یہ بھی دیکھیں کہ کیسے عراق، افغانستا ن، شام اور لیبیا کو تباہ و برباد کیا گیا۔ اسرائیل کو قائم رکھنے کے لیے جو بھی ملک نرم گوشہ نہ رکھتا، اس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا پروگرام بنایا جاتا۔ یہ وہی اسرائیل ہے جس کے تمام امریکی اداروں بشمول بڑے بڑے امریکی معاشی اداروں اور کارخانوں میں شیئرز ہیں، یا پھر وہ اسرائیل کی ملکیت ہیں۔ اگر یہ کہیں کہ امریکی معیشت اسرائیلیوں کے زیرِ اثر ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ البتہ اب امریکہ کے پاس اپنا تیل نکل آیا ہے، اور وہ اس مد میں خود کفیل ہوگیا ہے۔ ہاں، فرانس اور برطانیہ کی تیل کی ہوس پوری نہیں ہو رہی۔ اس ضمن میں ہوتااس طرح ہے کہ جب کسی ملک پر چڑھائی مقصود ہو، تو اتحادی ممالک اس میں سے اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ افغانستان، شام، لیبیا اور عراق کا مسئلہ آپ کے سامنے ہے۔ جہاں مذکورہ ممالک کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے، وہاں پر فوراً چڑھائی کے لیے منصوبہ بندی کرلی جاتی ہے۔ کئی ایک حربوں جیسے ’’اکنامک ہٹ مین‘‘ (معاشی غارت گر) کے ذریعے بااثر اور چوٹی کے حکمرانوں کو راستے سے ہٹایا جاتا ہے۔ اگر اس سے بھی کام نہ چلے، تو اس پر اپنے اتحادیوں کے ساتھ چڑھائی کی جاتی ہے۔ ان سب کاموں کی خاطر صریح جھوٹ اور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ میڈیائی مشینوں کے ذریعے بے بنیاد تشہیر کی جاتی ہے۔ حالا ت کو تیار کرنا ہوتا ہے اوراپنے گماشتوں کے ذریعے خفیہ اطلاعات حاصل کی جاتی ہیں۔ بعد ازاں ان گماشتوں اور اتحادیوں کو حصہ داری، زمینیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔
اب کیا کرنا چاہیے کہ قرضوں اور ان ملکی و غیر ملکی بدمعاشوں سے آرام مل سکے؟ میرا خیال ہے کہ جب تک کوئی ملک ان کا آلۂ کار نہیں بنتا، اس کے ساتھ قومی مفاد کے سلسلے میں نرمی نہیں برتتا اور اپنی معیشت کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر خود سنبھالا نہیں دیتا، اس وقت تک ان بدمعاش ریاستوں سے اپنا گریبان نہیں بچا سکتا۔ لہٰذا ہمیں اپنے قومی وقار کا خیال رکھنا ہے اور دوسروں کی جنگوں میں حصہ نہ لے کر اپنے آپ کو مزید خرابی سے بچانا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پڑوسیوں سے اچھے تعلقات نہ بنائیں، ان پڑو سیوں کے معاملات میں دخل اندازی اپنی ملکی رسوائی کا سبب بنتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پڑوسیوں کے ساتھ امداد اور تعاون کیا جائے نہ کہ اس کے تعاون اور امداد کی بجائے اس کو کمزور کیا جائے۔
قارئین، جب تک ملک کے عام شہریوں کے ترقی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے انہیں ساتھ نہیں لیا جاتا، اس وقت تک ترقی نہیں ہوسکتی۔اداروں کو لگام دینا ہوگا، ان کو قانون کا پاس دار بنانا ہوگا۔ جب ہر کوئی اپنے کام سے غرض رکھے گا، تو مجال ہے کہ کوئی اپنے کام کے علاوہ سوچے بھی۔ اداراتی سروسز کو یقینی بنانا ترقی کے اہداف کوجلدی حاصل کرنے کے مترداف ہے۔ انصاف اور قانون کی حکمرانی سے ملکی اداروں کی عمل داری یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف گرانی اوربلاوجہ ٹیکسز سے چھٹکارا اورعام صنعتکاروں کو اقتصادی پالیسیوں میں شامل کرکے ترقی کی دوڑ میں انہیں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ان سب سے بالا معاشی غارت گروں اور عالمی بنیوں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ ان مذکورہ قرضہ جات کے لیے عالمی عدالت میں مقدمہ ضروری ہوگیا ہے اور جتنی سخت شرائط ان عالمی بینکوں نے پاکستان کے عام عوام پر اور سروسز پر لاگوکی ہیں، ان سے کنارہ کشی میں ہی بہتری ہے