کراچی کی انسدادِ دہشتگردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی تو واقعے کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ عدالت نے رپورٹ کی روشنی میں نقیب اللہ سمیت 4 نوجوانوں کے قتل کو ماورائے عدالت قرار دے دیا، جبکہ پولیس کی جانب سے چاروں مقتولین کے خلاف درج 5 مقدمات بھی ختم کرنے کی منظوری دے دی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ نقیب اللہ، صابر، نذر جان اور اسحاق کو داعش اور لشکر جھنگوی کے دہشت گرد قرار دیکر ویران مقام پر قتل کیا گیا، انکوائری کمیٹی اور تفتیشی افسرنے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا، راؤ انوار اور اس کے ساتھی جائے وقوعہ پر موجود تھے۔

نقیب اللہ اور چاروں افراد کو کمرے میں قتل کرنے کے بعد اسلحہ اور گولیاں ڈالی گئیں، حالات و واقعات اور شواہد کی روشنی میں یہ مقابلہ خود ساختہ، جھوٹا اور بے بنیاد تھا، پولٹری فارم میں نہ ہی گولیوں کے نشان ملے اور نہ ہی دستی بم پھٹنے کے آثار ملے۔