نیاز احمد خان
بمبوریت کرکال کی رہنے والی ایک پڑھی لکھی خاتون ’’شائرہ‘‘ نے چترال وومن کالج سے گریجویشن اور پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری لی ہوئی ہے۔ شائرہ مختلف این جی اوز کے ساتھ کام بھی کرتی ہے۔ وہ کیلاشی روایتی لباس پہنتی ہے۔ تمام تہواروں میں حصہ لیتی ہے۔ کیلاشی ثقافت اور روایات سے محبت کرتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ کیلاشی لڑکیاں چاہتی ہیں کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ ترقی یافتہ علاقوں کی لڑکیوں کی طرح زندگی گزاریں جن کیلاشی خواتین نے تعلیم حاصل نہیں کی، وہ بہت افسوس کرتی ہیں۔
شائرہ کے بقول، یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ تعلیم کی ہی وجہ سے کیلاشی مسلمان ہوتے ہیں۔ بیس، تیس سال قبل بھی کیلاشی مسلمان ہوتے تھے۔ خاص کرلڑکیاں مسلمان ہوتی تھیں۔ کئی مثالیں ہیں ہمارے پاس۔ ہمارے کئی خاندان کے لوگ تعلیم یافتہ نہیں تھے، مگر وہ بھی مسلمان ہوئے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، لڑکیاں چاہتی ہیں کہ ان کا شریکِ حیات اچھے سے اچھا ہو، خوبصورت ہو، مالی طورپر مستحکم ہو اور کیلاش میں آزادی ہے، لڑکی کسی کوبھی جیون ساتھی بناسکتی ہے۔ ہم اس کو روک نہیں سکتے۔ جب وہ کسی مسلمان کو پسند کرتی ہے، تو پھر اسے مسلمان ہونا ہی پڑتاہے۔ بعد میں وہ لڑکی ہمارے کلچر کا حصہ نہیں بن سکتی، نہ وہ دوبارہ کیلاشی بن سکتی ہے۔ کئی لڑکیاں مسلمان ہوکر پچھتابھی رہی ہیں، مگرہم کچھ نہیں کرسکتے، نہ وہ پھر کچھ کرسکتی ہیں۔ کیوں کہ اس سے ہمیں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ کوئی بھی مسلمان نہیں چاہتا کہ ان کے مذہب کا کوئی بندہ دوبارہ کیلاشی بن جائے۔ اس طرح کیلاش میں بھی کسی دوسرے مذہب کے شخص کو قبول نہیں کیا جاتا۔ ایک مرتبہ اس طرح ہواتھا کہ دماغی طوپرایک معزور لڑکی جومسلمان ہوئی تھی، واپس آگئی، تو اس سے بڑا مسئلہ پیدا ہوا۔ مسجدوں میں ہمارے خلاف اعلانات ہوئے اور مسلمانوں کا جلوس نکل آیا۔ ہمیں اپنے اور بچوں کی زندگی کا خطرہ محسوس ہوا۔ ڈھیر ساری لڑکیاں مسلمانوں سے شادی کرکے بعد میں پچھتاتی ہیں۔ ان کو مسلمان گھروں میں پھر طعنے دیے جاتے ہیں کہ تم کافر ہو، تم نے کافر کے گھرمیں جنم لیاہے۔ تم کبھی سچی مسلمان نہیں بن سکتی۔ یوں اب کئی گھروں میں کیلاشی لڑکیوں سے نفرت اور کراہت کی جاتی ہے۔ زیادہ ترلڑکیاں اپنی من مرضی سے چلی جاتی ہیں، تو ان کو شوہرکے گھر وہ حیثیت نہیں ملتی۔ اس طرح بہت سارے مسلمان لڑکوں نے جھوٹ بول کر اپنی حقیقت چھپا کر کیلاشی لڑکیوں سے شادی کی ہے۔ زیادہ تر مسلمان جھوٹے وعدوں سے کیلاشی لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں۔ پہلے پیار و محبت کے دعوے کیے جاتے ہیں، مگر بعد میں معلوم ہو جاتا ہے کہ یا تو وہ شادی شدہ ہوتا ہے، یا اس نے اپنے خاندان کے لوگوں سے پوچھے بغیر شادی کی ہوئی ہوتی ہے۔ اس طرح پھر شادی کرنے والی کیلاشی لڑکی کو کئی مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ پھر بھی شادی کرنے والی لڑکی کے بھائی بہن، والدین ان سے ہمدری رکھتے ہیں اور اس کی تکلیف کی وجہ سے دکھی ہوتے ہیں۔
شائرہ کے مطابق دیگر کیلاشیوں کی طرح وہ بھی اپنے مذہب اور کلچر کے ساتھ محبت کرتی ہے ۔ کیوں کہ ان کا مذہب برائی اور جرائم سے منع کرتا ہے۔ شائرہ کے مطابق انہوں نے اسلام مذہب کا بھی مطالعہ کیاہے۔ ’’اسلام بھی ہمارے مذہب کے قریب ہے، مگر مجھے اپنے مذہب میں کوئی ایسی برائی نظرنہیں آتی۔ کیوں کہ ہمارے لوگ بے ضرر ہیں، ہم تشددکے خلاف ہیں۔ ہم معصوم لوگ ہیں۔ یہاں پر چھوٹے چھوٹے جرائم بہت کم ہیں۔ ہم کسی کو قتل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘
شائرہ کے مطابق کیلاشی کلچر اور قبیلہ بہت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ’’شاید بیس یا تیس سال بعد ہمارے کیلاشیوں کا وجود ہی ختم ہوجائے۔ جس سے مجھے اور ہمارے دوسرے کیلاشیوں کوبہت دکھ ہے۔میری بہن بھی مسلمان ہو کر پپکے سے پنجاب چلی گئی ہے اور وہاں ایک مسلمان سے شادی رچائی ہے، جس پر ہمیں بہت دکھ ہے۔ ہم نے ان سے ہرقسم کاناتا توڑ دیاتھا، مگر تین مہینے بعد میرا اس سے رابطہ ہوگیا۔ والدین بھی ان سے ناراض ہیں۔ میری ماں نے رو رو کر اپنا برا حال کیا، مگر ہم کیا کرسکتے ہیں؟ تکلیف اس وقت بہت زیادہ ہوتی ہے جب شادی کرنے والا مسلمان جھوٹ بول کر کیلاشی لڑکی کے ساتھ شادی کرلیتاہے۔ میں پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ زیادہ تر شادہ شدہ اور بچوں والے مسلمان کیلاشی لڑکیوں کے ساتھ شادی کیا کرتے ہیں۔ کیلاشی لڑکیاں بہکاوے میں آجاتی ہیں۔‘‘ (جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیں کیلاش کی سیر کریں (چھٹا حصہ)
