سوات سے وزیر اعلیٰ کیوں ہضم نہیں ہو رہا؟
نیاز احمد خان
ملاکنڈ ڈویژن میں سوات کومرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس طرح ملاکنڈڈویژن کے سات اضلاع میں سوات کو بڑے بھائی کی حیثیت ہے۔ جب بھی کوئی اہم فیصلہ ہو، سیاسی جدوجہد کا آغاز ہو یا احتجاجی تحریک ہو، ضلع سوات نے بنیادی کردار اد ا کیا ہے، مگر سوات کو مسلسل دہائیوں سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی وزیراعلی سوات سے نہیں آیا۔ 
قارئین، دور نہیں جاتے، 2005ء میں عام انتخابات ہوئے۔ سوات کے لوگوں نے ایم ایم اے کو ووٹ دیا۔ تمام صوبائی سیٹ سے ان کے اتحادی کامیاب ہوئے، مگر وزیراعلیٰ بنوں سے آیا۔ درانی صاحب نے اپنا تمام صواب دیدی فنڈ بنوں پر خرچ کیا، اور بنوں کا نقشہ تبدیل کر دیا۔ 2008ء میں سوات کے لوگوں نے عوامی نیشنل پارٹی کو ووٹ دیا۔ سات کی سات صوبائی نشستیں اے این پی کے حصے میں آئیں۔ سوات کے صحافیوں نے سوات سے وزیراعلی لانے کا مطالبہ بھی کیا، مگر امیر حیدر خان ہوتی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ سوات میں حالات سخت خراب تھے۔ سوات کے نام پراربوں ڈالر آئے، مگر زیادہ فنڈز کا زیادہ تر حصہ مردان پر خرچ ہوا۔ آج ترقیاتی کاموں کی بدولت ضلع مردان کا نقشہ ہی بدل چکا ہے۔ امیر حیدرخان ہوتی نے بطورِ وزیراعلیٰ اپنا تمام صواب دیدی فنڈ مردان میں خرچ کیا۔ 
اس طرح 2013ء میں عام انتخابات ہوئے۔ حسبِ روایات سوات کے لوگوں نے ایک ہی پارٹی ’’پی ٹی آئی‘‘ کو دل کھول کرووٹ دیا۔ ماسوائے ایک کے باقی چھے سیٹیں پی ٹی آئی نے بھاری اکثریت سے حاصل کرلیں، مگر خان صاحب نے وزیراعلیٰ کا تاج نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے پرویز خٹک کے سر پر رکھ دیا۔ پرویز خٹک صاحب نے ریکارڈ کے مطابق اپنا تمام صواب دیدی فنڈ نوشہرہ میں خرچ کیا۔ آپ نوشہرہ جا کر دیکھ لیں، اب بھی خٹک صاحب کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ نوشہرہ کی بھی تقدیر بدل کر رہ گئی۔ 
پھر 2018ء میں عام انتخابات ہوئے، ایک مرتبہ پھر سوات کے عوام نے پی ٹی آئی کو کلین سویپ کرانے میں مدد دی۔ صوبائی آٹھ اور قومی تین نشستیں پی ٹی آئی کو طشتری میں رکھ کر دی گئیں۔ اس مرتبہ خان صاحب نے انصاف سے کام لے کر وزیراعلیٰ کا تاج سوات کے محمود خان کے سر پر رکھ دیا۔ محمود خان ایک طرح سے اس کے حق دار بھی تھے اور سوات کے لوگوں کا یہ حق بھی بنتا تھا۔ 
اب جب سے محمود خان نے بطورِ صوبہ کے وزیراعلیٰ کے اپنا منصب سنبھالا ہے، تو ان پر دوسرے اضلاع کے سیاست دان اور کچھ ہمارے صحافی دوست تنقید کر رہے ہیں۔ مختلف طریقوں سے وزیراعلیٰ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت محمودخان کو اپنے منصب کے لیے دفاع پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ تبھی تو کئی مرتبہ محمود خان نے کہا کہ وہ بااختیار وزریراعلیٰ ہیں اور خان صاحب کا اُن پر پورا اعتماد ہے۔ 
کچھ دن قبل تو انہوں نے میڈیا کے سامنے کہاکہ ’’خان صاحب میرا باس ہے، اور تمام صوبائی وزرا بشمول سینئر وزیر عاطف خان کا میں باس ہوں۔‘‘ اختلافات اور اختیارات کی جنگ ایک طرف، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سوات اور ملاکنڈڈیژن کی تمام سیاسی پارٹیاں اور عوام محمود خان کے وزیراعلیٰ ہونے پر متفق ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سوات کئی دہائیوں سے نظرانداز ہوتاچلا آیاہے۔ سوات ایک سیاحتی علاقہ ہے، مگر اس کی سٹرکیں کئی دہائیوں سے خراب ہیں۔ سیاحتی علاقوں تک رسائی مشکل ہے۔ یہاں اسپتالوں کی حالت خراب ہے۔ لاکھوں نوجوان بے روزگاری کا شکارہیں۔ بنیادی سہولیات کی کمیابی الگ ہے، جن میں سوئی گیس، بجلی اور صاف پانی کی فراہمی شامل ہے۔ تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔ کئی طلبہ ہر سال داخلوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس طرح بے شمار کئی مسائل ہیں۔ ماضی میں پشاور، مردان، بنوں، نوشہرہ، ایبٹ آباد اور کئی اضلاع سے وزیراعلی آچکے ہیں، جہاں بے پناہ ترقیاتی کام بھی ہوچکے ہیں۔ 
قارئین، وزیراعلیٰ کا صواب دید فنڈ کل ترقیاتی فنڈ کا تیسرا حصہ ہوتا ہے، جو سوات کے ذکر شدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے ناکافی ہے، مگر پھر بھی اگر اس کو مکمل طورپر سوات میں خرچ کیا گیا، تو عوام کی محرومیوں کا بڑی حد تک اِزالہ ہوجائے گا۔ ان مسائل کے حل ہی کے لیے عمران خان نے سوات کو وزیراعلیٰ کا منصب دیا ہے۔ مَیں بطورِ صحافی ہمیشہ غیر جانب دار رہاہوں اور اس پرآج بھی قائم ہوں۔ مگر اپنے صحافتی تجربے کی بنیاد پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر سوات سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ کو خدا نخواستہ ہٹا دیا گیا، تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس عمل سے ایک طرف سوات میں پی ٹی آئی کا وجود خطرے میں پڑجائے گا، کیوں کہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے لوگوں کا رویہ دیکھ لیا ہے، مگراہم ترین بات یہ ہے کہ سوات کے لوگ پچھلے آٹھ دس سالوں سے حکومتوں سے ناراض چلے آرہے ہیں۔ اس کی وجہ سوات میں دہشت گردی اور اس کے بعد ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر دہشت گردی مسلط کی گئی تھی، اور ان سے طاقت کے ذریعے ’’قربانیاں‘‘ لی گئی ہیں۔ سوات کے لاکھوں لوگوں نے پاکستان کی بقا کے لیے دہشت گردی برداشت کی، مگر اس کے بدلے تاحال سوات کے لوگوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا ہے۔ 
اس نکتہ کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب سوات کے لوگ ایک ملا کی آواز پر اُٹھ سکتے ہیں، تو یہی لوگ حکومت کی غلط پالیسوں پر اُٹھ سکتے ہیں۔ پھر سوات کے لوگوں کایہ مطالبہ جائز تصور کیا جائے گا کہ حکومتِ پاکستان ان کے ساتھ مخلص نہیں ہے اور ان کی پرانی ریاستِ سوات والی حیثیت کو بحال کردیاجائے۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں