ڈاکٹر عبیداللہ

حکومت اور اس کے کارندے ایک طرف ”تعلیمی ایمرجنسی“ اور ”ہر بچہ سکول میں“ کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے، جب کہ دوسری طرف تعلیمی لوازمات، ضروریات اور سہولیات کی دستیابی کے لیے حکومت کی طرف سے کسی قسم کاسنجیدہ منصوبہ بھی زیرِ غور نہیں۔
قارئین، سرکاری سکولوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ ڈھیر سارے سکولوں میں چھے جماعتوں کے لیے صرف دو کمرے اور دو اساتذہ میسر ہیں، بلکہ بعض سکولوں میں تو ایک ہی استاد ہے۔ محکمہئ تعلیم میں ”سنگل ٹیچر سکول“ کی باقاعدہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔مطلب، ایک استاد بیک وقت تین جماعتوں کو پڑھاتا ہے۔ اس طرح وہ روزانہ 21 مضامین پڑھاتا ہے۔ ایک کمرے میں تین مختلف جماعتوں کے طلبہ کو بٹھایا جاتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے اور اس سے تعلیمی انقلاب آسکتا ہے؟
پرائمری تعلیم سب کی بنیاد ہے اور پرائمری سکول اور اس کے اساتذہ سب سے زیادہ نظر انداز اور مسائل کا شکار ہیں۔ حالاں کہ ان کی یکسوئی اور حوصلہ افزائی سب سے اہم ہے۔
اس کے علاوہ پرائمری سکول کے اساتذہ کو پولیو، مردم شماری، خانہ شماری، انتخابات اور سکول سے باہر بچوں کو داخلہ دینے کی مہم وغیرہ جیسے کاموں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سکول کے دو اساتذہ میں سے ایک کو پولیو یا کسی اور کام میں بھیج دیا جائے، تو ایک استاد چھے جاعتوں کو کیا اور کیسے پڑھائے گا؟
سوال یہ ہے کہ کیا پرائمری سکول کا استاد اتنا فارغ ہے کہ اس کو پولیو، مردم شماری، خانہ شماری، انتخابات، سکول سے باہر بچوں کو سکول لانے وغیرہ کے کاموں میں لگایا جاتا ہے؟ حالاں کہ پرائمری سکول کے استاد کی ذمہ داری تعلیم کے پورے عمل میں سب سے زیادہ اہم، سب سے مشکل اور بھاری ہے۔
پرائمری کے استاد کے ساتھ یہ ناانصافی بھی ہو رہی ہے کہ موجودہ تعلیمی نظام میں سب سے زیادہ کلاسز ان کے ذمے ہیں۔ سہولیات کا جائزہ لیا جائے، تو انہیں بہت کم میسر ہیں۔ مغز ماری اور مشقت کا کام پرائمری کے استاد کا ہے، لیکن تنخواہ بھی انہیں سب سے کم دی جا رہی ہے۔ اس کے مقابلہ میں مڈل، ہائی، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی ڈیوٹی کم، سہولیات زیادہ اور تنخواہیں موٹی ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟