روح الامین نایابؔ
سبزی کی دکان کے آگے کھڑے ہوکر جب ڈرتے ڈرتے نرخ پوچھے، تو ہوش ٹھکانے آگئے۔ ہم نے روایتی طور پر خدا کا خوف دلاتے ہوئے کچھ نہ کچھ قیمتیں کم کرنے کی استدعا کی، تو فرمانے لگے، ”صاحب جی! سیزن ہے۔ کچھ تو کمانا چاہیے۔“ مَیں نے جب اُس کے ہاتھ میں تسبیح کی طرف اشارہ کیا کہ یہ کیا ہے؟ تو کہنے لگے کہ اس کا بھی سیزن ہے۔ کچھ ثواب بھی کمانا چاہیے۔
ہمیں تو پہلے ہی رمضان کی برکتوں کا اندازہ تھا۔ اب یقین بھی ہونے لگا کہ ہماری سرکار نے بھی ان برکتوں سے بھر پور استفادہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ تمام نیک اور اچھے کاموں کے لیے اسی مہینے کا انتخاب بلاشبہ ریاستِ مدینہ کے قیام کے ابتدائی اسلامی احکامات ”امیر المومنین“ کی طرف سے جاری ہو رہے ہیں، یعنی وہ بھی ثوابی سیزن کا فائدہ اُٹھاکر ثواب دارین حاصل کرنے کا تہیہ کرچکے ہیں۔
اسی بابرکت مہینے میں آئی ایم ایف سے ”میثاقِ مدینہ“ دستخط کرنا، ریاستِ مدینہ کے مسلمانوں سے ”رمضان زکوٰۃ“ وصول کرنے کے لیے پیٹرول، گیس اور بجلی کے نرخ بڑھانا کہ ریاست کے باشندوں سے خون پسینہ کی کمائی چھین کر انہیں بھی سیزنی ثواب کمانے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
ریاست کے عوام بھی نیک اور پارسا بننے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے لیموں سے لے کر چینی تک سیکڑوں، ہزاروں بوریاں ذخیرہ کرنے کے سیزنی برکتوں سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ الحاج ”فضلِ الٰہی“ اور الحاج ”غلام رسول“ کے گوداموں پر چھاپے ڈالے جارہے ہیں۔ وہ بھی گز بھر تسبیح ہاتھوں میں پکڑ کر سیزنی ثواب حاصل کرنے کے لیے مسلسل ورد کرنے میں مشغول ہیں۔
کتنا عجیب سیزن ہے کہ ذخیرہ اندوز بھی فیض یاب ہونے کی آس لگائے بیٹھے ہیں، اور ذخیرہ برآمد کرنے اور چھاپے ڈالنے والے بھی سیزنی ثواب کمانے کے دعویٰ گیرہیں۔
وعظ اور نصیحت سے اگر کام چلتا، تو نپولین کے ہاتھوں مصر تباہ نہ ہوتا اور نہ بغداد کا سینکڑوں برس کا عباسیہ دور نیست و نابود ہوتا۔ برسہا برس سے اچھائیوں کی تلقین کی جارہی ہے۔ نصیحتیں کی جارہی ہیں۔ جنت کی بشارتیں دی جارہی ہیں۔ جہنم، دوزخ کی آگ اور سخت عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے۔ حج، رمضان، تراویح، عمروں، جمعہ نمازوں اور رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماعات میں لاکھوں، کروڑوں فرزندانِ توحید دعائیں مانگ رہے ہیں، لیکن مسلمان بہ حیثیت اُمت ہر جانب سے تنزلی کا شکار ہے۔ آخرت کا تو پتا نہیں، مگر دنیا میں ضلالت کی زندگی سے دوچار ہے۔ ہر طرف سے ذلیل ہو رہا ہے۔ ہار رہا ہے۔ کشمیر ہو یا فلپین، فلسطین ہو، یا برما کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ہمیں کسی چیز پر اعتبار نہیں، یقین نہیں۔ ہمیں ثواب پر یقین ہے نہ عذاب پر۔ نیکی پر اعتبار ہے نہ برائی پر۔ اگر تھوڑا بہت بھی ہوتا، تو کچھ تو گزارا ہوتا۔ کچھ تو پروردِ گار صلہ دے دیتا۔ کچھ تو اللہ مہربان ہوتا۔ وہ تو نہایت رحم والا اور مہربان ہے۔ رب العالمین ہے لیکن شاید عالمین سے ہمیں مائی نس کیا گیا ہے۔
قارئین کرام! ہم دراصل دوغلے پن کا شکار ہیں۔ صدیاں گزر گئیں ہم نے ایک طرف ہونے کا فیصلہ نہیں کیا۔ بہت حادثات آئے۔ انقلابات آئے۔ ہم نے بہ حیثیت مسلمان کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہاں، منافقت اور دوغلے پن کا ایک انجانا فیصلہ ہم کرچکے ہیں۔ زبانی ہم جو بھی دعویٰ کریں، وہ تھوڑا وقت گزرنے کے بعد اور ذرا سا ذاتی مفاد دیکھ کر ہم سب بھول جاتے ہیں۔ عمروں اور حجوں میں خانہ کعبہ کے آگے کھڑے ہوکر ہم پر وجد طاری ہوجاتا ہے۔ رونے سے ہماری ہچکیاں بندھ جاتی ہیں، لیکن واپس آکر سب کچھ ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ تبلیغ میں چیلے کاٹ کر اللہ کی راہ میں سالوں اور برسوں لگا کر ہماری جھوٹ، حسد، کینہ اور بغض کی روایتی عادات نہیں بدلتیں۔ ہم پھر وہی ڈاک کے تین پات، وہی پشتو محاورہ ”لالا نہ تلے نہ راغلے“ کے مصداق زندگی گزار رہے ہیں۔ ملکی اور قومی شعور کی یہ حالت ہے کہ ڈالر دن بہ دن اوپر جارہا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہر پاکستانی چند ٹکوں کے اپنے ذاتی فائدے کی خاطر دھڑا دھڑ ڈالر خرید رہا ہے۔ لازمی بات ہے کہ مارکیٹ میں جس چیز کی زیادہ مانگ ہوگی، وہی قیمتی ہوگی۔ مارکیٹ خواہ معیشت کی ہو یا سبزی منڈی کی۔
کالم کے آخر میں یہی کچھ لکھنے پر مجبور ہورہا ہوں کہ برسہا برس کے مذہبی، ذاتی تجربوں اور سعادتوں کے بعد شاید ہم بحیثیتِ امتِ مسلمہ یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ ہم سیزنی مسلمان رہیں گے۔ ہم عبادت بھی کریں گے، تو عداوت بھی کریں گے۔ نماز بھی پڑھیں گے، ساتھ جھوٹ بھی بولیں گے۔ ناجائز کمائی بھی کریں گے۔ یعنی داڑھی رکھ کر، تسبیح لے کر، مسلمان کا حلیہ بنا کر، اپنے ذاتی مفاد اور کمائی کے لیے حلال اور حرام میں تمیز کیے بغیر یہ ”عارضی زندگی“ گزارتے رہیں گے، یعنی ہم دوغلے پن یعنی ”یہ بھی کریں گے وہ بھی کریں گے“ کہ منافقت کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
اب یہ دعا کس منھ سے کروں کہ ”اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔“
سیزن کے مسلمان
