موت کا ایک دن معین ہے، جو لامحالہ آنے والا ہے۔ اس میں لمحہ بھر کی تاخیر اور تقدیم نہیں ہوتی۔ یہ بڑے بڑوں کو فنا کرتی ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی سچائی موت ہے کہ یہ قدرت کا قانون اور ہمارا عقیدہ ہے۔
دنیا میں سبھی لوگ ترتیب سے پیداہوتے ہیں اور بے ترتیب فوت ہوکر واپس لوٹتے ہیں۔ کہاں لوٹتے ہیں؟ اس سوال کا جواب مذہب و سائنس ہمیں دیتا ہے۔ مذہب کہتا ہے کہ اس کے بعد زندگی ملے گی کہ وہ کبھی نہ ختم ہوگی۔ وہاں ذرے ذرے کاحساب ہوگا۔ سائنس کہتی ہے کہ انسان مرکر دوبارہ مٹی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ بھلا انسان کا وجود صرف مٹی ہے کہ خاک میں تبدیل ہوجائے گا؟
لیکن ایسی موت جو دانستہ لائی جائے، اس میں خدا کے قانون کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ خدا کا دستور یہ ہے کہ عموماً لوگ بوڑھے ہوکر مرتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ نوجوانی میں شدید عارضے یا اچانک حادثہ کی وجہ سے موت کی بلا آکر دبوچ لیتی ہے۔ خیر، یہ تو کسی نتیجے کی وجہ سے موت آتی ہے۔ اس کے برعکس انسانوں کو خدا تعالیٰ نے یہ قدرت بھی دے رکھی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا چراغ خود اپنے ہاتھوں گل کرلے۔ زہر کھالے یا بلڈنگ وغیرہ سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلے، یہ انسان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ محاسبہ مگر سب کا ہونا ہے۔
پتا چلا کہ ہارٹ اٹیک ہوا، ایکسیڈنٹ ہوا، دریا میں بہہ گیا، بجلی کا جھٹکا لگا وغیرہ، تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن اس طرح کے قتل کو کیا نام دیا جائے جب مارنے والا ہی نا معلوم ہو۔ چپکے سے وار کرکے منظر سے بھاگ جائے۔ کسی کا دشمن معلوم ہو، تو پھر بھی دل کو تھوڑا سا سکون ملتا ہے، کہ اس کا قصاص کیا جائے گا اور تختہئ دار پر لٹکایا جائے گا۔ یا پھر فی سبیل اللہ معاف ہی کردیا جائے گا، جو کہ پسماندگان کے صوابدید پر منحصر ہے، کہ یہی ایک روایتی، قانونی اور رواجی راستہ مقرر ہے۔ کسی کو اپنے ڈیفنس میں مارنا قانونی عمل ہے۔ تاہم اس کو عدالتی طور پر ثابت کرنا مشکل امر ہے۔
ریاستیں اپنے مفادات کے لیے دوسری ریاستوں پر چڑھائی کرتی ہیں اور اس وجہ سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ دوسری صورت میں ریاستیں غداری کے الزام میں کچھ افراد کو مار دیتی ہیں۔ بیشتر مواقع پر غداری کا لیبل صرف قتل کے جواز کے لیے بنایا جاتا ہے۔ تاہم کسی مشن، کسی حکم کے برخلاف اقدام، کسی نشان دہی، مزاحمت، بغاوت، شخصی چپقلش، سٹیٹ پالیسی کے برخلاف وغیرہ وغیرہ پر مارنا جدید ریاستوں بشمول ماضی کی پس ماندہ ریاستوں کا شیوہ رہا ہے۔ ”نیشنل انٹرسٹ“ اور خارجہ محاذ پر مخالفت کرنے والے کو کچلا جاتا ہے۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،کوئی گواہ نہیں ملتا۔ آرڈر آتا ہے کہ کس کو مارنا ہے اور کس کو چھوڑنا ہے۔ جرم اور الزام بارے پوچھنا پالیسی اور حلف کے خلاف ورزی تصور ہوتا ہے۔ اندھا دھن اس پر عمل کرنا ہی فرائض منصبی کا تقاضا ہے۔ ایسے افراد کی تمام نقل وحرکت نوٹ کی جاتی ہے اور کسی کو ایسی جگہ مارنا ہوتا ہے کہ جہاں کسی اور کی مزاحمت کا سامنا نہ ہو۔
مذہبی فرقہ پرستی کے طور پر دوسرے فرقے کے نظریات و افراد کو غلط ثابت کرکے قتل مقاتلہ کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ میری نظر میں سنگین قتل وہ ہوتا ہے جب قتل ہونے والے کو اور خود قاتل کو قتل کے مضمرات اور مفاد معلوم نہیں ہوتا۔ اس سے مزید حیرانی اس وقت درپیش ہوتی ہے جب سامنے قتل ہونے والا بھی مسلمان اور قاتل بھی مسلمان ہوتا ہے۔ ایک بھی نعرہئ تکبیر بلند کرتا ہے اور دوسرا بھی لاالہ کا ورد کرتا ہے۔ بے گناہ کو اندھی عقیدت کے طور پر سولی پر لٹکایا جاتا ہے۔ ایک شہید اور دوسرا غازی بن جاتا ہے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اور کسی گروہی مقاصد کو انجام تک پہنچانے کے لیے سر پھرے بھی کام آجاتے ہیں۔ اجرت لے کر کسی کا کام تمام کردیا جاتا ہے۔ یہ ایسی باتیں ہیں کہ جن سے انسانیت بھی شرما جائے۔اس کے آگے دین، عقیدہ، نظریہ اور ازم کچھ بھی نہیں ہوتا۔ مقصد کسی کو چپ کرانا اور اپنے دیرینہ مقاصد کی آبیاری ہوتا ہے۔ جہاں کہیں اپنے مفاد کے خلاف کوئی دکھائی دے، بس اس پر کفر کا فتویٰ لگا نے کی دیر ہوتی ہے۔ [ھر جنونی افراد کی فیکٹری اس کا کام تمام کردیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت کیا جاتا ہے۔
دنیا میں تمام مخالف و متحارب اسٹیک ہولڈرز کا مفاد مشترکہ ہے اور وہ ہے غریب کے منھ سے نوالہ چھیننا۔ برائے نام مخالفت اس لیے ضروری ٹھہرتی ہے کہ غریب مزدور عوام کی آنکھوں میں دھول پھونک دیا جائے۔ نہیں سمجھ آیا کیوں غریب کو مارا جاتا ہے؟ یہ سب اپنی پراپرٹی، طاقت، اثر و رسوخ قائم رکھنے، ملکیت کے تحفظ، سرمایہ داری، جاگیرداری اور مذہبی ٹھیکیداری کو محفوظ کرانے کے واسطے ہوتا ہے۔
موت کا بازار
