تصدیق اقبال بابو
یہ بات میں کہیں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ شیر شاہ آبشارؔ کو میں جانتا نہ پہچانتا تھا۔ اِک دفعہ میں نے اپنے ہاں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔ منتخب شعرا کی فہرست میں نے اپنے دوست عطاء الرحمان عطاءؔ کے سامنے رکھی، تو انہوں نے سب شعرا کے بارے میں اثبات میں سر ہلاتے ہوئے لسٹ کے آخر میں شیر شاہ آبشارؔ کے نام کا اضافہ بھی کر دیا۔ میرے استفسار پہ کہنے لگے: ”یہ ایک اُبھرتا نوجوان شاعر ہے، لیکن کیا کمال کے شعر کہتا ہے!“ گھر میں لسٹ پہ ڈسکشن ہو رہی تھی۔ (اتفاق سے شریکِ حیات بھی باذوق ہیں) مجھے کہا گیا: ”آپ شیر شاہ آبشارؔ کو نہیں جانتے……؟ آج کل ایف ایم ریڈیو پہ محمد گل منصورؔ اور سراج الدین سراجؔ کے بعد شیر شاہ آبشارؔ ہی کا تو توتی بول رہا ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی اور خاطر غزنوی کا یہ شعر بے ساختہ یاد آگیا کہ
میں اِسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے
اسی غزل کا مطلع ہے کہ
گو ذرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
شیر شاہ آیا اور چھا گیا۔ آج بھی میرے گاؤں کے جاتک، بالے اور نوجوان کہتے ہیں: ”بابو صاحب! پھر کبھی مشاعرہ بناؤ ناں! اور ہاں، نازؔ، منصورؔ اور آبشارؔ کو ضرور بلانا۔ میں اُنہیں کیا بتاؤں کہ میرا اِک دوست مجھ سے روٹھے بیٹھا ہے۔ اب محفلوں میں مزہ نہیں آتا۔ بہرکیف! آبشارؔ سے دوستی کا اٹوٹ رشتہ ایسا بندھا ہے کہ ”تڑائے نہ تڑے“ وہ اِک خاندانی بندہ ہے۔ مخلص، ایمان دار اور مہمان نواز۔ جس طرح اُس کی شخصیت جاذبِ نظر، پُرتاثیر اور با کمال ہے، اُسی طرح اُس کے شعر بھی پُرتاثیر، درد ناک اور باکمال ہیں۔ واجبی سی تعلیم ہونے کے باوجود بھی ”ہائی کوالیفائی“ لوگ اُس کے شعر کی نزاکت پہ داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ حال ہی میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ ”درد می پہ لفظونو کے پیرلے دے“ چھپ کر منظرِ عام پہ آیا ہے۔ انتہائی خوبصورت گیٹ اَپ اور بہترین ٹائٹل کی یہ مجلد کتاب 208 صفحات پر مشتمل ہے۔ سرورق کی منتخب دردناک تصویر ہی میں کتاب کے اندر کی ساری کہانی موجود ہے۔، جس میں اِک نادار، مجبور اور لاچار خاتون اپنے چاند جیسے بیمار جگر گوشے کی پیشانی پہ ہاتھ دھرے اِک گہری سوچ میں بیٹھی درد کے ہار پرو رہی ہے۔ شیر شاہ آبشار نے بھی اپنے معاشرے کے ان دُکھ، درد اور پریشانیوں کو لفظوں کا جامہ پہنا کر اپنے شعروں میں پرویا ہے۔ جس میں اُس کا ذاتی غم، کائناتی غم کا بلیغ استعارہ بن کر ہمارے سامنے آیا ہے۔ سمیع اللہ گرانؔ کتاب کے دائیں فلیپ پہ لکھتے ہیں کہ: ”آبشارؔ کی شاعری اُس کی زندگی کی ترجمان ہے۔ اُس نے زور زبردستی شاعری نہیں کی، بلکہ جو محسوس کیا اور دل سے جو ٹیس نکلی اُسے ہی لفظوں کے تار میں پرویا ہے۔“ جب کہ رضوان اللہ شمالؔ فلیپ کے بائیں پہلو پہ لکھتے ہیں کہ ”آبشار کا تخیل بلند جب کہ اسلوب سادہ، عام فہم اور رواں ہے۔ تاہم فنی ساخت کی نوعیت دل کھینچ ہے۔“ بابائے قطعہ عبدالرحیم روغانےؔ فرماتے ہیں کہ ”آبشار کی شاعری میں غمِ جاناں اور غمِ دوراں کا باہم اشتراک اِک عجیب سی دردناک کیفیت پیدا کرتا ہے۔“
اندرونی صفحات میں پروفیسر عطاء الرحمن عطاؔ نے اپنے طویل دیباچے میں آبشارؔکی شاعری کے داخلی اور خارجی پہلوؤں سے پردے سرکائے ہیں۔ لکھتے ہیں: ”آبشارؔ کی شاعری میں نہ صرف معروضی حالات، عصری حیات اور زندگی کی حقیقی تصویریں محفوظ ہیں، بلکہ ان حالات کا رد عمل بھی موجود ہے۔“
اکبر زادہ اکبر لکھتے ہیں کہ ”شیر شاہ آبشارؔ کی شاعری سنجیدہ، طنزیہ اور قومی رنگوں میں بھی رنگی ہوئی ہے، لیکن جوانی کے احساس کے رنگ اس کی رومانویت پہ ایسے غالب ہیں کہ سننے والا عش عش کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے“۔
محبی طاہر بونیری اپنی ”کیتے بیتے“ میں فرماتے ہیں کہ: ”شیر شاہ آبشارؔ کی شاعری محبت اور مقصدیت سے لبالب بھری ہوئی ہے“۔ جب کہ ڈاکٹر دیدار یوسف زیئ کا کہنا ہے کہ ”آبشارؔ کی شاعری میں رومانوی اور جمالیاتی رنگ غالب ہیں۔ انہوں نے قلبی واردات کو آسان اور رواں پیرایہ میں بیان کیا ہے۔ جبھی تو اُن کے لفظی اور معنوی بندھن ابہام سے دور دکھائی دیتے ہیں“۔ لکھتے ہیں:
تا دَ دی دَ پارہ گل سرہ راوڑمہ
گل پہ غوگ کے، تا گریوان کے گدم ازغیہ
د عروج د بام پہ سر باندے ولاڑ وے
خو افسوس چی پرے حصار نہ شوی سڑیہ
شیر شاہ ادب کی جھیل سے نکلنے والی اُس ”آبشار“ کا نام ہے، جس نے اِک وسیع حلقے کو نہ صرف اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے بلکہ دوسروں کو اِفادہ پہنچانے کا کام بھی کررہا ہے۔ ایک دفعہ میں اور میرا سنجیدہ ادبی دوست روح الامین نایابؔ، شیر شاہ آبشارؔ سے ملنے اُس کے گاؤں دیولئی گئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ موصوف نے وہاں کے نوجوان شاعروں کی پنیری کے لیے ”دیولئی پختو ادبی تڑون“ نامی اِک حلقہ بنا رکھا ہے، جس کے آپ چیئرمین، اکبر زادہ اکبرؔ سر پرست اعلیٰ، سید علی شاہ سعیدؔ صدر اور وقاص حساسؔ جنرل سیکرٹری ہیں۔ ستاروں کی اس آبجو میں ذاکر حسین ذاکرؔ، جاوید خان جاویدؔ، عرفان اللہ عرفانؔ، شفیع الرحمان ننگیالؔ، اثر خان اثرؔ، محمد علی علیؔ، امیر حمزہ امیرؔ اور منیب خان مجمرؔ جیسے ستارے موجود ہیں۔ آپ چاند کے ہالے کی مانند ان نوجوانوں کی ادبی پرداخت کررہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ”سوات ادبی ملگری“ نامی تنظیم میں بھی نائب صدر ہیں۔ اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ شخصی حوالے سے بھی آپ انتہائی شفیق، نفیس، ملنسار اور یاروں کے یار انسان ہیں۔ اسی لیے سوات کے علاوہ دیر، شانگلہ، بونیر اور پشاور سے بھی آپ کو مشاعروں کے بلاوے آتے رہتے ہیں۔
کالم کی تنگ دامنی کے سبب اس نشست میں کتاب کے فنی اور فکری پہلوؤں پہ خاطر خواہ روشنی نہیں ڈالی جاسکی۔ اِن شاء اللہ یہ قرض پھر کبھی اُتاریں گے، ”یار زندہ صحبت باقی!“ سر دست اتنا ہی کہوں گا کہ کتاب بڑی معیاری، اچھی اور سلجھی ہوئی شاعری کا مرقع ہے، جو یقینا پڑھنے، لائبریری میں رکھنے اور تحفے میں دینے کے لائق ہے۔
نمونے کے چند چیدہ اشعار ملاحظہ ہوں:
بس ماتہ ئے د چا خواگہ یادونہ راتازہ کڑل
کابلہ! پہ منڑہ می درلہ خی سترگی خوگے کڑے
یہ بھی کہ
پہ تا الزام دے محافظہ وطن تا سیزلے
تا می د خوار اولس گریوان تہ لگولے دے اور
اور یہ بھی کہ:
کلہ کلہ مینہ پہ کے ہم ویشہ
درد دے د زغملو نہ وتلے دے