بلاگر: کامران عبدالغنی

چار اپریل پاکستانیوں کے لئے سیاہ ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ 4 اپریل کو ہی پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے وقت کے سب سے بڑے عوامی لیڈر تھے۔ بھٹو صاحب کے چرچے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہوتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے منفرد انداز کی وجہ سے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہوگئے تھے۔ سنہ 1963ء میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے امریکا کے سرکاری دورے پر گئے اور وائٹ ہاؤس میں ان کی ملاقات امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے ہوئی۔ اس ملاقات کے دوران جان ایف کینیڈی نے ذوالفقار علی بھٹو کی اعلیٰ سفارت کاری، ذہانت اور مدبرانہ سوچ کو دیکھتے ہوئے کہا اگر آپ امریکن ہوتے تو میں آپ کو اپنی کابینہ میں شامل کرلیتا جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے صدر کینیڈی کو جواب دیتے ہوئے کہا، "مسٹر پریذیڈنٹ محتاط رہیں اگر میں امریکن ہوتا تو آپ کی جگہ پر ہوتا”

"گھاس کھائیں گے پر ایٹم بم بنائیں گے، ہم دنیا کو دکھا دیں گے کہ ہم کسی سفید ہاتھی کے محتاج نہیں، ہم آزاد اور خود مختار قوم ہیں”۔ یہی وہ الفاظ تھے جن کی پاداش میں منتخب وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ جب 1979ء میں بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو ان کو یہ خوشخبری مل چکی تھی کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔ اپنے وقت کے سب سے بہادر لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے سب سے پہلے قومی مفاد کو ترجیح دی یہاں تک کہ ملک کے لئے اپنی جان تک قربان کردی جبکہ آج کی پیپلز پارٹی کے قائدین ملکی مفادات کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے نظریاتی جیالوں کی ایک بڑی تعداد پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے رویوں کی وجہ سے ناراض ہے۔ ایک وقت تھا جب پیپلزپارٹی میں جیالوں کی بہت عزت کی جاتی تھی مگر اب تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی طرح پیپلز پارٹی میں بھی اب صرف نئے آنے والوں کو عزت مل رہی ہے باقی سینئر اور نظریاتی کارکنان کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ دراصل پاکستان سے نظریاتی اور اصولی سیاست کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے اور اب ملک میں صرف نوٹوں کی سیاست ہے۔ موجودہ دور میں جس کے پاس جتنا پیسہ وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہے۔

سال1973ء کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو نے اس قوم کو بہت کچھ دیا اور بدلے میں قوم نے بھی انہیں وہ مقام دیا جو آج تک کوئی دوسرا سیاسی لیڈر حاصل نہیں کرسکا۔ آج بھی پاکستان میں سیاست یا تو اینٹی بھٹو ہے یا پرو بھٹو۔ وقت نے پاکستان میں لیفٹ اور رائٹ کی سیاست کو پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو کی سیاست میں تبدیل کیا۔ اکثر سیاسی مخالفین پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے طنزیہ کہتے ہیں کہ سندھ میں ہر شعبہ تباہ ہوچکا ہے بس صرف بھٹو زندہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنان اور قائدین آج بھی یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے

اگر ملک کے موجودہ سیاسی رہنما بھی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اصولی اور عوامی سیاست کرتے تو پاکستان کی داخلہ و خارجہ صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔ پیپلز پارٹی خود بھی اگر صحیح معنوں میں بھٹو کے نظریات کو لیکر آگے چلے تو پھر سے پیپلز پارٹی مقبولیت کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو جیسے بہادر اور عظیم لیڈر کی ضرورت ہے۔ آج تک عوام اس عظیم سیاستدان کو نہیں بھول سکے جس نے پاکستانی سیاست کے نئے دور کی بنیاد رکھی اور عوام کو اظہار رائے کے ساتھ اپنے ووٹوں کے ذریعے قیادت منتخب کرنے کا حق دلوایا