سلیمان ایس این
جناب وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان صاحب آپ کی خدمت میں اسی امید کے ساتھ عرضداشت پیش کی جارہی ہے کہ آپ غور فرماکر انہیں حل کریں گے سنا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا حکومت نے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر 60 سے 63 سال کردی ہے اور25 سال پری میچیور (premature) ریٹائرمنٹ کے ساتھ 55 سال کی عمر ریٹائرمنٹ کیلئے مقر ر کی ہے جناب والہ جس سے کئے نقصانات رونما ہوں گے۔ اس لیے صوبہ خیبر پختونخوا کے بے روزگارنوجوان اور سرکاری ملازمین کے بچے آپ کے بچے ہیں ان بچوں کو تباہی سے بچائیں اور ان کی دعائیں لیں،
جناب والہ پہلے جب سرکاری ملازمین 25یا 26 سال نوکری پوری کرلیتے تو ان کو مناسب رقم ملتی تھی 25 سال نوکری مکمل کرتے وقت ان کے بچے یونیورسٹی کے سطح تک پہنچ چکے ہوتے تو یہ رقم ان کی تعلیم کے لیے پوری ہوتی اب اس اقدام سے سرکاری ملازمین کے بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہوجائینگے۔
پچیس سال نوکری کے وقت سرکاری ملازمین کی بچیوں کی عمر شادی کی ہوتی ہے پہلے جب سرکاری ملازمین وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لیتے تووہ کم از کم اپنے بچیوں کی شادی کرتے جو اب نہیں ہوگی اور اس سے معاشرے میں کئی اور خرابیاں پیدا ہوں گی۔
پچیس سال کے پری میچیور (premature) ریٹائرمنٹ کے وقت مناسب رقم ملتی تھی اب 25 سال نوکری کے ساتھ 55 سال کی شرط لگائی گئی ہے پہلے جو سرکاری ملازمین کو فنڈ ملتا تھا اب55 سال کی عمرکے بعد وہ رقم 3 گناّ کم ملے گی جو سرکاری ملازمین کے بچوں کی تباہی ثابت ہوگی۔
پچیس یا چبیس سال کی عمر میں جب سرکاری ملازمین پری میچیور (premature) ریٹائرمنٹ لے تو اس رقم سے اپنے بچوں کے لیے گھر بنا لیتے اور کچھ رقم سے اپنا چھوٹا کاروباروغیرہ کرتے تھے جس سے بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور بچیوں کے جہیز کیلئے مناسب بندوبست ہوتا تھاجب سرکاری نوکر 60سال تک پہنچ جاتا ہے تو اس کی تنخواہ لاکھ میں ہوتی ہے 60 سال میں ریٹائرہونے سے اس کی تنخواہ کے بدلے 4 نئے امیدواران بھرتی ہوسکتے ہیں۔
لہٰذا ’’وزیر اعلی ‘‘ صاحب والدین اور نوجوان نسل کی آپ سے درخواست ہے کہ اس قوم کے بچوں پر رحم کریں بے روز گاری اس معاشرے کا روگ بن گئی ہے لاکھوں کروڑوں خرچ کر کے والدین نے بچوں کو پڑھایا ہے۔ آج کے تعلیم یافتہ انتہائی مہنگے تعلیمی نظام سے تعلیم حاصل کر چکنے کے بعد وہ بے روزگار ہیں۔ والدین بوڑھے، ناتواں اور کمزور بلکہ بیمار یا وفات پا چکے ہیں۔ 2019-20 ء اور 2023 ء تک لاکھوں لوگ ریٹائر ہوں گے آپ ان کو مزید 3 سال دے کر نو جوانوں کو سرکاری ملازمت کی حد سے تین سال آگے لے گئے ہیں۔ ان کے خوابوں کو نہ چور کریں ان کو بے روزگاری کی ذلت سے نجات دلائیں۔ زیادہ سے زیادہ سرکاری آسامیاں پیدا کریں نہ کہ پرانے لوگوں کو مزید 3 سال دے کر نئے بچوں کی زندگی کے 3 سال ضائع کریں اور کچھ کے تو یہ تین سال ساری زندگی ضائع کرنے کے مترادف ہوں گے۔ کیونکہ وہ سرکاری نوکری کی عمرکی حد سے تجاوز کر چکے ہوں گے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملک ویزہ ایجنسیاں دبئی لے گئے ہیں۔ کوئی ملک ویزہ نہیں دیتا جو پہلے عرب ممالک میں موجود ہیں ان کا انخلاء جاری ہے۔ وطن عزیز میں پڑھے لکھے بے روز گار کروڑوں میں ہیں۔ ایک سپاہی کی نوکری پر ایم اے پاس بچے لائن میں لگے ہوئے ہیں۔کہ ان کو نوکری مل جائے۔ مہنگائی نے اللہ کی نعمتیں آنکھوں کے سامنے ہیں مگر ہاتھ لگنے سے اکثریت کو محروم کر دیا۔ یہ بچے اگر روزگار نہ ملا تو کدھر جائیں گے یہ جرائم میں ملوث ہوں گے یہ نسل جو آپ کے نعرے اور اندازے تقریر سن سن کر ادب اداب تو پہلے بھول چکی ہے بے روزگاری اور مایوسی ان کو جرائم پیشہ بنا دے گی جرم یا خود کشی جی خود کشی کے علاوہ ان کے پاس تیسرا راستہ نہیں ہو گا۔ نو جوانوں کا سوچیں ان کو روزگار دیں ، صحت کارڈ، مسافر خانے، یہ ڈرامے قوم کو بھکاری تو بنا دیں گے عزت دار قوم نہیں ریٹائرمنٹ کی عمر 63 سال کی بجائے 55 یا 58 سال کریں تاکہ نئی نسل کو روزگار ملے اور اگر تعلیمی اہلیت ہونے کے با وجود وہ سرکاری نوکری کی حد سے پار کر چکے ہیں تو قواعد کے مطابق ان کو Rexation Age دیں۔ آپ نو جوانوں کا بازو پکڑیں ہاتھ پکڑیں انہیں بے روزگاری اور ذلت کی دلدل سے نکالیں تا کہ وہ بھی آپ کے بازو بنے رہیں۔
جناب والہ یہ فیصلہ صرف اور صرف خیبر پختونخوا میں ہو ا ہے جو سندھ،پنجاب، بلوچستان اور وفاقی سطح پر نہیں ہوا ہے جو کہ خیبر پختونخوا کے نوجوانوں ،سرکاری ملازمین اور ان کے بچوں کے ساتھ ذیادتی ہے۔اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور امتیازی سلوک جو کہ پاکستان کے آئین دفعہ 25 کی خلاف ورزی ہے جو بتاتاہے کہ ملک میں کسی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوگا۔
جناب وزیر اعلی خیبر پختپختونخوا محمود خان صاحب آپ سے درخواست ہے کہ آپ یہ فیصلہ واپس لیکر صوبہ بھر کے والدین اور سرکاری ملازمین کے بچوں کی دعائیں لیں او ر ان کے بہترمستقبل کے لئے اپنا کردار ادا کریں ان نوجوان بچوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچایئں ورنہ اس سے معاشرے میں بہت خرابیاں پیدا ہوگی اور یہ صوبے کیلئے نقصان دہ ہوگا۔
اپنے ووٹروں کی لاج رکھیں ناقدین سچے ثابت نہیں ہو رہے ہو چکے ہیں۔