ساجد ٹکر
ہم حیران اور پریشان ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہم یا تو حساس بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور یا پھر حالات سنگینی کی حدیں بھی پار کر چکے ہیں۔ ہمیں ان لوگوں پر ترس بھی آرہا ہے جو ہماری اس کیفیت کے ذمہ دار ہیں۔ ہم ان کو سمجھانا بھی چاہتے ہیں لیکن کیا کریں کہ وہ سقراط بنے بیٹھے ہیں۔ اور ان کی اس ایڈونچر کا نتیجہ ہے کہ ٹماٹر، جس کے بارے میں آج بھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ یہ پھل ہے یا سبزی، ایسی من مانی کرنے لگا ہے کہ خیبر سے کراچی تک ہر زبان اور مزاج کے لوگوں کے ہوش بادلوں سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ، جنہیں موجودہ حکومت بگڑتی معیشت کو سنبھالنے، اس کی ڈوبتی ناو کو بچانے اور اس کا بیڑا پار کرنے کی غرض سے بڑی امیدوں سے دیار غیر سے لائی تھی، نے کل پرسوں ٹماٹر کو سبق سکھانے کے لئے اس کے بارے میں ایسی گفتگو فرمائی جو ٹماٹر کو بالکل پسند نہیں آئی اوراس کا غصہ مزید سر چڑھ کر آسمان پر پہنچ گیا۔ مارکیٹ، منڈی اور دکانوں میں چند دنوں سے ٹماٹر نے اپنا دبدبہ ایسا قائم کیا تھا کہ ہم جیسے عام لوگ تو اس کا نام لینے کی بھی جرات نہیں کر رہے تھے لیکن پتہ نہیں مشیر خزانہ صاحب کس ترنگ میں آئے اور ٹماٹر کی اتنی ’’حوصلہ افزائی‘‘ کر ڈالی کہ وہ اب مان ہی نہیں رہا۔ کہیں نظر آ بھی جائے تو لوگ خوف سے اپنا رستہ بدل لیتے ہیں کہ جناب ٹماٹر کا کوئی بھی سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اصل میں ٹماٹر نے اپنی پرواز برقرار رکھتے ہوئے اپنی نگاہیں برائن لارا کی چار سو رنز کا ریکارڈ توڑنے پر مرکوز کر رکھی تھیں لیکن مشیر خزانہ صاحب نے ٹماٹر کو صرف سترہ رنز پر رن آؤٹ کا نعرہ بلند کیا جس کے جواب میں ٹماٹر نے ریویو لیا اور امپائر نے ناٹ آؤٹ قرار دیتے ہوئے اسے اپنی اننگز جاری رکھنے کی اجازت دی جس کے بعد مختلف پچوں پر ٹماٹر کی اننگز ڈبل اور فلیٹ پچوں پر تو ٹرپل سنچری تک پہنچ گئی ہے۔ ہماری معیشت چونکہ پچھلے ڈیڑھ ایک سال سے وینٹی لیٹرز پر ہے اور اس کے علاج میں مصروف معیشت کے سرجن اور فزیشن اسد عمر صاحب چونکہ کچھ عرصہ پہلے تھک ہار کر ہتھیار ڈال چکے ہیں، اس لئے حکومت نے معیشت کی سانسیں بحال رکھنے اور اسے نئی زندگی دینے کے لئے ایک اور ڈاکٹر یعنی شیخ صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ وہ پچھلے چند ماہ سے لگے ہوئے ہیں لیکن معیشت ویسے بے حال، بے کیف اور بے حس پڑی ہے اورکروٹ ہی نہیں لے رہی ہے۔ قوم اس مخمصے میں مبتلا تھی اور ٹماٹر کو آؤٹ کرنے کے لئے پلان میں سر جوڑ کر بیٹھی تھی کہ ایک اور وزیر جناب غلام سرور نے مٹر کو بھی اشتعال دلا دیا۔ انہوں نے نعرہ مستانہ بلند کیا اور فخریہ پیشکش کر ڈالی کہ مٹر صرف پانچ روپے فی کلو دستیاب ہے۔ ٹماٹر کو پِچ پر ایک تگڑا ساتھی مل گیا اور دونوں کی اننگز تاحال جاری و ساری ہے۔ عوام بے چارے دونوں کے غیض و غضب سے بچنے کے لئے اب ہیلمٹ پہننے پر مجبور ہیں۔ عوام ان حالات سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار ہی رہے تھے کہ بیچ میں کسی نے ضمانتی بانڈز کا شوشہ چھوڑ دیا۔ عوام سہم گئے کہ اب کیا کریں گے اور یہ کون سی نئی بلا نازل ہوگئی ہے۔ خیر لوگوں کے اوسان تب تھوڑے سے بحال ہوئے جب کسی نے ان بے چارے عوام کو سمجھایا کہ ان ضمانتی بانڈز کا عوام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بڑے لوگوں کے آپسی معاملات ہیں۔ لیکن عوام چونکہ اب اتنے بھی بے خبر نہیں کہ ان باتوں کو ہوا میں اڑا کر ایک طرف رکھ دیں۔ عوام کو بخوبی علم ہے کہ ٹماٹر اور ضمانتی بانڈز کا چاہے آپس میں کوئی کھلم کھلا تعلق ہو یا نہ ہو لیکن حکومت کی جانب سے دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ عوام تو یہ بھی دعوی کر رہے ہیں کہ چونکہ حکومت روزہ مرہ اشیاء کی قیمتوں کو کم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اس لئے اب ٹماٹر کی دھواں دھار اننگز کے غلغلے کو دبانے کے لئے یا پس منظر میں لے جانے کے لئے ضمانتی بانڈز جیسی چیز سامنے لا رہی ہے۔ اپنے اسی دعوے کی صداقت بارے عوام رائے رکھتی ہے کہ جب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو صحت کی بنیاد پر باہر جانے کی اجازت دے ہی رکھی ہے تو پھر حکومت، کابینہ اور پھر کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے ضمانت اور ضمانتی بانڈز چہ معنی دارد؟ عوام یہ بھی سوچ کر پاگل ہو رہے ہیں کہ جب کسی شخص کو اپنے وعدے کی پاسداری نہ کرنے کی پاداش میں اشتہاری مجرم قرار دیا جا سکتا ہے تو پھر ضمانتی بانڈز کی مانگ کے کیا معنی ہو سکتے ہیں؟ ان عوام میں کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حکومت اور بالخصوص وزیراعظم عمران خان کا نواز شریف کے بارے میں رویہ روز اول سے ہی سخت رہا ہے اور امریکہ میں تو پابند سلاسل قیدی کے اے سی اتارنے تک کا دعوی بھی کر چکے تھے تو اب اگر یوںہی اور بغیر کسی شرط کے میاں صاحب کو جانے دیا جاتا ہے تو شائد ان کے ووٹرز اور سپورٹرز ناراض ہو جائیں کہ بھئی ہمیں کیا کیا کہتے چلے آرہے ہو اور اب بنا کسی ضمانت اور بات چیت کے میاں صاحب کو باہر جانے دیا جا رہا ہے۔ لوگ سوال تو پوچھیں گے اور اس کے جواب کے لئے عوام سمجھ رہے ہیں کہ حکومت میاں نواز شریف کو ضمانتی بانڈز جیسی چیز کا پابند بنانے کی کوشش رہی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے میاں صاحب کا جو حکومت کے لئے آسانی پیدا کرنے کے موڈ میں ہی نہیں اور سرے سے حکومتی شرط کو ہی مسترد کر دیا ہے۔ اب ایک طرف ٹماٹر اور مٹر کی اننگز ہے اور دوسری جانب ضمانتی بانڈز کا شوشہ۔ سیاست اور حکومت چونکہ گیمز آف تھرونز کی طرح ہیں اس لئے ان میں اپنا لوہا منوانے بلکہ برقرار رکھنے کے لئے ہر دن ایک نئی سٹوری لائن کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے حکومت کی جانب سے بھی لگتا ہے یہی طریقہ ہی اپنایا جا رہا ہے اور ایک مسئلے یا معاملے کو دبانے کے لئے دوسرے کا سہارا لیا جارہا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے عوام کا کہ اب وہ یہ گیمز بھی سمجھ چکے ہیں اور وہ لمحوں میں ہی سوشل میڈیا پر اپنی اس علمیت یا مہارت کا اظہار کرکے سارے پول کھول دیتے ہیں۔ دوسری جانب ڈیل اور ڈھیل کا بھی غلغلہ ہے۔ جہاں ایک طرف اپوزیشن ڈیل کو رد کرچکی ہے وہاں حکومت اور بالخصوص وزیراعظم کی جانب سے پچھلے کئی دن سے مسلسل طور پر یہ فرمان جاری کیا جا رہا ہے کہ ڈیل کروں گا اور نہ این آر او دوں گا۔ ہمارے تو یہ باتیں سن سن کر کان پک گئے ہیں اور کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ این آر او کون مانگ رہا ہے، کون نہیں مانگ رہا اور کون ہے جو این آر او دے گا یا نہیں دے گا؟ لیکن ہم حیران اس لئے بھی ہیں کہ ایک طرف تو وزیراعظم عمران خان یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ این آر او حرام ہے لیکن دوسری جانب ہمیں یہ بھی اطلاعات مل رہی ہیں بلکہ آثار بتا رہے ہیں کہ مختلف طریقوں سے میاں نواز شریف کی منتیں ترلے کی جا رہی ہیں کہ وہ باہر جائیں، جہاں سے چاہیں علاج کرائیں لیکن بس ایک مہربانی فرمائیں کہ ان کو عوامی لعن طعن سے بچانے کے لئے ایک ضمانت مرحمت فرماتے جائیں۔ لگتا ایسا ہے کہ اب حکومت کی لاج میاں صاحب ہی رکھ سکتے ہیں۔ لیکن عوام بہر حال جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ بات ٹماٹر کی مہنگائی جیسے معاشی معاملے سے شروع کی تھی لیکن باتوں باتوں میں سیاست کی طرف نکل گئی۔ لیکن اچھا ہوا کہ ہمیں یہ پتہ چلا کہ ٹماٹر اتنا بڑا مسئلہ نہیں بلکہ اس کی قیمت سے لاعلمی اور وہ بھی ایک ایسی شخصیت کی جانب سے جن کے ہاتھ میں ہمارے سارے ملک کی معیشت بلکہ خزانے کی چابیاں ہیں۔ اگر ایک عام سا شخص اٹھ کر یہ کہے کہ ٹماٹر سترہ روپے فی کلو ہیں تو چلو اس کو دو چار باتیں سنا کر غصہ نکال دیا جائے گا کہ تو سو رہا ہے کیا، یا کہیں ہاتھی کے کان میں گھر بسا رکھا ہے۔ لیکن یہ قیمتی، بیش بہا اور بے کیف و جہت دعوی ایک ایسے بندے کے منہ سے ٹپکا ہے جن کو خصوصی طور پر ایک ملک کی معیشت کو اپنے قدموں پر دوبارہ کھڑا کرنے کے واسطے بڑی امیدوں اور آرزوؤں سے لایا گیا ہے۔ ایسی حالت میں ہمیں اپنی پریشانی اب بجا محسوس رہی ہے۔ ہم پریشان ہیں کہ بائیس کروڑ لوگوں کو ٹماٹر تو ایک سو پچاس سے کم میں کہیں نہیں مل رہے لیکن مشیر صاحب سترہ روپے میں لینے کی بات کر رہے ہیں۔ اب یا تو یہ بائیس کروڑ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں اور یا پھر مشیر خزانہ صاحب سرے سے ٹماٹر استعمال ہی نہیں کرتے؟