شائستہ حکیم

”مجھے اس وقت احساس ہوا جب میری سہلیاں محلے میں شرارتیں کرتی تھیں۔ کسی کے گھر کی گھنٹی بجاکر بھاگ جاتیں اور مجھے یہ روداد سناتیں۔ تب مجھے احساس ہوا کہ کاش، میں بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ دوڑدھوپ کرسکتی۔“
یہ باتیں ہیں پولیو سے متاثرہ چھتیس سالہ شائستہ عزیز کی جوکہ بچپن میں پولیو کی شکار ہوئیں، اور ان کی دونوں ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑدیاتھا۔ شائستہ عزیز اپنی تمام عمر بیساکھیوں پر گزاری ہے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم چھوڑدی۔ اب انہوں نے دست کاری اور ہاتھ سے بنانے والی اشیا کی تربیت لے رکھی ہے۔ شائستہ عزیز آنکھوں میں درد اور افسو س کا اظہار لیے کہتی ہیں کہ پولیو کی وجہ سے معذور ایک فرد تکلیف میں نہیں ہوتا، بلکہ اس کی وجہ سے سارا خاندان کرب اور تکلیف کی زندگی گزار رہاہوتاہے۔ ان کے ساتھ وابستہ والدین، دادا، دای، نانا، نانی، بہن، بھائی حتی کہ دور کے رشتہ دار بھی اس تکلیف کو محسوس کرتے ہیں۔ جب یہ متاثرہ فرد ایک خاتون ہو، تو پشتون معاشرے میں یہ مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ان کہناہے کہ معذور کے ساتھ ہمدردی بہت سارے لوگ کرتے ہیں، مگر کبھی ان کے دکھ اور درد کا ساتھی نہیں بنتا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ جب وہ بڑی ہوئی، توان کے دل میں بھی ارمان تھے۔ وہ اپنی سہیلوں اور رشتہ داروں کے ساتھ خوشیاں مناناچاہتی تھی، مگر وہ عام لوگوں سے مختلف تھی۔ کئی مرتبہ خاندان میں ان کو یہ احساس دلایاگیاہے کہ وہ ایک معذور ہے۔ ان کو میک اَپ، اچھے کپڑوں اور زیورات سے کیا لینا دینا۔ اشک بار آنکھوں کے ساتھ انہوں نے بتایاکہ باوجود اس کے کہ ن نکے والدین اور بھائیوں نے اس مشکل میں ان کا بے حد ساتھ دیا، مگر پھر بھی کاش اس وقت پولیومرض کے خلاف ویکسین ہوتا، تو آج وہ ایک نارمل اور عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتی۔ انہوں نے مزید کہاکہ تمام والدین کو چاہیے کہ سب کچھ چھوڑ کر پہلے اپنے بچوں کے بہترمستقبل اور ان کی زندگی کو اجیرنبنانے سے قبل پولیو اور دیگر امراض کے خاتمے کے قطرے اپنے بچوں کو پلائیں۔
حق نوازجوکہ پولیو سے متاثرہ شائستہ عزیز کے بڑے بھائی ہیں،انہوں نے اپنی بیٹی سمجھ کر شائستہ کی خدمت کی ہے۔ اس حوالہ سے ان کاکہناہے کہ ایک معذور بچی کا خاندان میں ہونا انتہائی تکلیف دہ عمل سے گزرنا ہے۔ ان کا کہناہے کہ سوات میں جب شورش کے دوران پولیو کے قطرے نہیں پلائے جاتے تھے، اور عسکریت پسند اس کی مخالف کیا کرتے تھے، تو انہیں بے حد افسوس اور دکھ ہوتاتھاکہ اللہ نہ کرے کسی اور کے گھر کا بچہ پولیو کا شکار ہوجائے۔ انہوں نے کہا اب اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ سوات میں امن کی وجہ سے پولیو مرض کے خلاف محکمہئ صحت کا کامیاب آپریشن جاری ہے، وہ خود بھی سماجی کارکن ہے اور ہر فورم پر اس موذی مرض کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتاہے۔
سوات میں انسداد پولیو کے ادارے کے ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ ویکسین ڈاکٹراقبال احمد جوکہ گذشتہ آٹھ سالوں سے کام کررہے ہیں، کا کہناہے کہ ”جب 2007ء میں ملا ریڈیو نے سوا ت میں لڑکیوں کی تعلیم اور پولیو کے خلاف پروپیگنڈا کیا، تو پولیوکے قطرے پلانے کی بات تو دور ہمارے عملے کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔ سوات میں 2007ء سے لے کر 2010ء تک پچاس فیصدسے زائد علاقوں میں پولیوکے قطرے نہیں پلائے گئے۔ میں اس وقت مٹہ کے علاقے کوز شور میں ڈیوٹی دیتاتھا۔ ایک مقامی عسکریت پسند نے ہمیں براہ راست دھمکی دی کہ آپ لوگ این جی اوز کے لئے کام کرتے ہیں اورہمارے رہنماؤں کے مطابق ایک این جی او کے اہلکار کو مارنا بیس کافروں کے مارنے کے مترادف ہے۔ اس طرح ہمارے پچاس فیصد سے زائد پولیو کے عملے نے کام کرنے سے انکارکیا۔ ہمارے ساتھ پچاس فیصد عملہ رضاکاروں کا ہوتاہے، جن کو معاوضہ دیاجاتاہے۔ ان سب نے پولیو کے قطرے دینے سے انکار کردیا۔ اس طرح ضلع سوات میں اس وقت چارلاکھ بچوں کو پولیوکے قطرے پلائے جاتے تھے، مگر پچاس فیصد والدین نے بچوں کے پولیو کے قطرے دینے سے انکار کردیا۔ 1993ء سے لے کر 2007ء تک سوات میں پولیو مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ پولیو کے قطرے نہ پلانے سے 2018ء سے 2014ء تک پولیو سے متاثرہ بچوں کے کیس سامنے آتے رہے، مگر اب پچھلے پانچ سالوں سے ضلع سوات پولیو کے مرض سے مکمل صاف ہے۔ کوئی کیس سامنے نہیں آیاہے۔“
ڈاکٹر اقبال احمد کا مزید کہناہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ضلع سوات کے پولیو عملہ، ضلع انتظامیہ نے عوام کی مدد سے پولیو مرض کے خلاف انتہائی پیشہ وارانہ طریقے سے کام کیا ہے اور اس مرض کو ضلع سوات سے مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔ اس کے لئے مختلف طریقہئ کار کو اختیار کیاگیا۔ سب سے پہلے ہم نے مذہبی رہنماؤں کو اعتما د میں لیا۔ سوات کی ستاسٹھ سے زائد یونین کونسلوں میں آگاہی مہم چلائی۔ سب سے بڑھ کر ہم نے مکمل اور درست ڈیٹا جمع کیا، جس کی وجہ سے اب سوات میں انکاری والدین کی شرح صفر ہے۔ پانچ لاکھ سے زائد بچوں کو پولیوکے قطرے باقاعدگی سے دیے جارہے ہیں۔ ضلع سوات خیبر پختون خوا کے تمام اضلاع کے لیے ایک مثال بن چکا ہے۔
پولیو کے قطرے پھیلانے والے محکمہئ صحت کی اہلکار ایل ایچ وی ناہید بہادر اکیس سالوں سے بطور لیڈی ہیلتھ ورکر کام کررہی ہے۔ ان کاکہناہے کہ سوات میں 2007ء سے لے کر 2012ء تک حالات انتہائی خراب تھے۔ عسکریت پسندوں نے ان کو براہ راست دھمکیاں دی تھیں کہ باہر نہیں نکلناہے، مگرانہوں نے کام سے کبھی انکار نہیں کیا۔ان کے کئی ساتھیوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں پولیو کے قطرے پلانے والے والدین انکاری ہوگئے تھے، مگر جب سوات میں فوجی آپریشن ہوا۔ عسکریت پسند ختم ہوئے، توانہوں نے بھی اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ہنگامی بنیادوں پر پولیوکے قطرے پلانیشروع کردئے۔ ان کے مطابق 2012ء میں چالیس ہزار سے زائد والدین اپنے بچوں کو پولیوکے قطرے پلانے سے منع کرتے تھے، مگر محکمہئ صحت، سماجی کارکنوں، علاقے کے مشران اور خصوصی آگاہی مہم کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس میں کمی آگئی۔ اب یہ وقت ہے کہ لوگ خود ان کے پاس چل کرآتے ہیں کہ ان کے بچوں کو پولیوکے قطرے پلائے جائیں۔ ایک طرف ان عسکریت پسندوں کا دباؤختم ہوا، تودوسری طرف انتھک محنت اور نرم روئے کی وجہ سے لوگوں نے ان کے ساتھ تعاون کرنا شروع کردیا۔ ا ن کا کہناہے کہ پولیو کے خاتمے کے لئے نہ صرف محکمہ صحت کے اہلکار بلکہ زیادہ تر عوام ہی بہتر کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا،تو سوات کی طرح خیبر پختون خوا کے دیگر حصوں سے بھی پولیو کا مکمل خاتمہ ہوگا۔
ضلع سوات میں ڈی پی سی آر ڈسٹرکٹ پولیو کنٹرول روم کے ترجمان ارشدجمال کاکہناہے کہ خیبرپختون خوا حکومت نے ہرضلع میں پولیو کی روک تھام کے لئے کمیٹی بنارکھی ہے، جس کو ڈی پی ای سی یعنی ڈسٹرکٹ پولیو انڈی کیشن کمیٹی کہتے ہیں جس کا چیئرمین ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہوتاہے۔ اس طرح اس کمیٹی کے زیر انتظام ڈی پی سی آر ہوتاہے جس کا سربراہ ضلع کا اے ڈی سی ہوتاہے۔ ان میں ڈبیلو ایچ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، محکمہئ صحت، انسداد پولیو کے ادارے ای پی آئی کے ممبران ہوتے ہیں۔ اس کنڑول روم کے ساتھ ضلع بھر کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ صحت کے اہلکاروں کا ریکارڈ ہوتاہے اور وقتاً فوقتاً ان سے بچوں کے حوالے سے معلومات اور ٹیسٹ لئے جاتے ہیں۔ جب تک یہ کمیٹی پولیو سے پاک سندجاری نہیں کرتی، اس وقت تک علاقے میں پولیو کے خلاف آپریشن جاری رہتاہے۔ ان کے مطابق پچھلے چار سالوں سے یہ کمیٹی سوات کو پولیو سے پاک علاقہ قرار دے رہی ہے۔ ان کے مطابق آخر ی واحد پولیوکیس2014ء میں سامنے آیاتھا۔دراصل اس بچے کاخاندان کراچی سے سوات منتقل ہوا تھا اور بنیادی طور پریہ وائرس سوات کے علاقے کا نہیں تھا۔
سوات کی ضلعی انتظامیہ کے سربراہ ڈی سی ثاقب نثار کا کہناہے کہ اس وقت پورے خیبر پختون خوا میں ضلع سوات پولیوکے حوالے سے مثالی ضلع ہے۔ کیوں کہ 2014ء میں ان کے مطابق آخری ایک پولیو کا کیس ریکارڈ ہوا ہے۔ اس کے بعد ضلع سوات میں کوئی پولیوکا کیس سامنے نہیں آیا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ بتاتے ہیں کہ ایک طرف حکومت کی طرف سے امن وامان لانے کے بعد عوام اور پولیو ورکرز میں اعتما د بحال ہوا۔ دوسری طرف محکمہ صحت کے اہلکاروں نے ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ ان کے مطابق پولیومہم کو براہِ راست ڈپٹی کمشنر کے دائرہ اختیار میں دیاگیا، جس کے لئے مربوط حکمت عملی تیار کی گئی۔ اس میں سوفیصد درست اعداد وشمار اکھٹے کئے گئے۔ ضلع سوات کے تمام ستاسٹھ یونین کونسلوں میں پولیو کے قطرے بچوں کو یقینی طور پر پلائے گئے۔ پولیو کے تمام اہلکاروں کو سیکورٹی دی گئی۔ انکاری والدین کو خصوصی طور پر نمٹایا گیا۔ ان کی تربیت کی گئی۔ ان کو مختلف طریقوں سے یقین دلایاگیا کہ پولیو قطرے کسی طرح بھی مضر نہیں اور یہ بچوں کے لئے مفید ہیں۔ ان کے مطابق ضلع سوات میں کسی بھی پولیو کی ٹیم پر حملے یا تشدد کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ اس لئے ہم فخر سے یہ کہتے ہیں ضلع سوات کے عوام باشعور ہیں۔ اگران کی درست طریقے سی رہنمائی کی جائے، تو وہ حکومت کے ساتھ ہر معاملے میں مکمل تعاون کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پولیو کیس کے لئے اقوامِ متحدہ کا ادارہ یونیسیف باقاعدہ ہر تین ماہ بعد مختلف علاقوں میں ٹیسٹ کرتاہے جوکہ ایک خود مختار ادارہ ہے۔ ان کے اہلکاروں کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کا رابطہ ہوتاہے اور اس ادارے کی رپورٹس کو وہ درست مانتے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر کا کہناہے کہ وہ ہرسال کا باقاعدہ ریکارڈ رکھتے ہیں جن میں پولیوکے کیس سے لے کر انکاری والدین تک شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے پاس اُس وقت کی اعداد وشمار موجود نہیں جب سوات میں عسکریت پسندوں کی کارروائی جاری تھی، جوکہ 2007ء سے لے کر 2012ء تک کا عرصہ ہے، مگر اس کے بعدانہوں نے باقاعدہ مختلف اداروں سے اعداد وشمار اکھٹے کیے اور ان کو ریکارڈ کا حصہ بنایاگیا۔
ڈی سی سوات کے ریکارڈ کے مطابق سوات کے ستاسٹھ یونین کونسلوں کے ساڑھے چارلاکھ سے زائد چھ سال کے بچوں کو ایک ترتیب کے ساتھ انسداد پولیو کے قطرے مختلف شیڈول کے مطابق دئے گئے ہیں۔ 2014ء میں آخری پولیو کے کیس کے آنے کے بعد یہ سلسلہ مزید تیزکردگیا۔ 2015ء میں مجموعی طورپرآٹھ مہمات چلائی گئیں جن میں بارہ سو چھیانوے پولیو اہلکاروں نے حصہ لیا۔ ان میں ستاون گھرانوں کے والدین نے بچوں کو پولیو کے قطرے دینے سے انکار کیا تھا، جن کو بعدمیں سمجھایا گیا اور ان کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے۔ اس طرح یہ سلسلہ 2019ء تک چلا، اور مختلف علاقوں میں انکاری والدین کی تعداد کبھی بڑھتی اور کبھی کم ہوجاتی تھی، لیکن2019ء میں اپریل کے مہینے میں سوشل میڈیاپر پولیو قطروں کے خطرے سے پشاور میں متاثرہ جعلی ویڈیو آنے پر انکاری والدین کی تعداد یک دم ہزاروں تک پہنچ گئی، جس سے ان کی مشکلات بڑھ گئیں، مگر بروقت تدابیر ہونے کی وجہ سے پھر بھی گیارہ ہزار گھرانوں کے سربراہوں نے پولیو کے قطرے اپنے بچوں کو دینے سے انکار کردیا۔ ان پر خصوصی توجہ دی گئی اور بلآخر اب ان میں صرف چند سوگھرانے انکاری ہیں، جن کو بھی راضی کیا جارہاہے۔ ان کے ریکارڈ کے مطابق 2015ء اگست 2019ء ضلع بھر کی پینسٹھ یونین کونسلوں میں اکتالیس میں انسداد پولیو کی مہمات چلائی گئیں جوکہ ہرسال تقریب آٹھ مرحلوں میں تقسیم ہوتی ہیں۔اس دوران کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ البتہ انکاری والدین کی تعداد ہزاروں تک رہی، مگر ان کے ریکارڈکے مطابق بعد میں پولیوکے قطرے پلائے گئے ہیں۔ اس طرح مسلسل محنت اورلگن کی وجہ سے آج ضلع سوات پولیو سے ایک پاک علاقہ قراردیا گیاہے۔