ساجد

ڈیل کارنیگی اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”اگر آپ نے وکیل بننے کا تہیہ کرلیا ہے، تو آپ آدھے وکیل بن گئے ہیں۔“
میرے ایک قریبی اسسٹنٹ پبلک پراسیکوٹر صاحب سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ وہ اپنا قصہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ”جب مَیں نے وکالت کی لائسنس حاصل کی، تو اول اول میرے پاس ایک شخص اپنا کیس لے کے آیا۔ بجائے اس کے کہ مجھے خوشی کا احساس ہوتا، میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ مَیں نے ٹال مٹول کرکے اس کو اس بہانے رخصت کیا کہ آپ کل آجائیں۔ اس دن کے بعد جب مَیں گھر سے نکلتا تھا، تو فکر رہتی تھی کہ کہیں وہ شخص مجھے دیکھ نہ لے، ورنہ پھر سے کیس لے کے آئے گا۔“
ایک اور سینئر وکیل صاحب کہتے ہیں کہ ”میری وکالت کے آغاز میں جب ہمارے خاندان کا کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ سر اٹھاتا، تو متاثرہ شخص سے زیادہ مجھے فکر دامن گیر رہتی کہ اب میں عدالت میں کس طرح اس سے بنٹوں گا۔“
قارئین، کرکٹ میچ میں جب ایک بیٹسمین بیٹنگ کے لیے گراؤنڈ میں اترتا ہے۔ سنچری بنانے کی نیت کرتا ہے، تو پہلی گیند کا سامنا کرتے ہوئے اس کا سکور صفر ہوتا ہے، ننانوے نہیں۔ حقیقی زندگی میں کچھ کرنے کا عزم کرتے وقت شروعات صفر سے ہی کرنا پڑتی ہے۔
مشہور مصنف اور قانون دان ایس ایم ظفر کی کتاب ”میرے مشہور مقدمات“ پڑھ رہا تھا۔کئی بڑے وکلا صاحبان کے دفاتر دیکھ رکھے ہیں۔ مَیں نے کتاب کھولی، تو میری نظر ”میرا پہلا مقدمہ“ کے عنوان پر پڑی۔ انہوں نے بطورِ وکیل اپنے پہلے مقدمے کے بارے میں رقم کیا ہے۔ ایس ایم ظفر صاحب چوں کہ بہت بڑے نام ہو گزرے ہیں، مگر ان کا قصہ پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ وکالت کے آغاز میں ہر وکیل گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے۔
قارئین، وکالت کی ایک خاصیت یہ ہے کہ آپ جتنے بھی بڑے آدمی کے بیٹے ہوں، جتنے بھی بڑے وکیل کے ساتھ پریکٹس کر رہے ہوں، مگر آپ شروع میں چھوٹے وکیل ہی کہلاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے، اور جو نئے وکلا صاحبان اس حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں، ان کے لیے آگے چلنا محال ہوجاتا ہے۔
جب میں لائسنس یافتہ وکیل بن گیا، تو میرے استادِ محترم احمد حسین ایڈووکیٹ صاحب نے مجھے ایک مقدمہ بھیجا۔ مسئلہ یہ تھا کہ پولیس نے ایک شخص سے موٹر سائیکل حوالات میں بند کی تھی۔ اس کو قانونی طریقے سے حوالات سے نکالنا تھا۔ میں ہکا بکا رہ گیا کہ میں کیسے یہ کام کرلوں؟ اچانک یاد آیا کہ جس طرح انسان کی ضمانت کی جاتی ہے، اسی طرح گاڑی نکالنے کے لیے سُپرداری کرنا ہوتی ہے۔ فکر اس بات کی بھی تھی کہ کون سے قانون کے تحت یہ ہوتا ہے؟ درخواست لکھنا ہے یا دعویٰ دائر کرنا ہے؟ اور کون سے جج صاحب کی عدالت میں پیش ہونا ہے؟ استادِ محترم سے پوچھنے پہ یاد آیا کہ کوڈ آف کریمنل پروسیجر کے دفعہ 561 اے کے تحت سپرداری کا معاملہ نمٹایا جاتا ہے۔ تمام تر کاغذی کارروائی ختم کرنے کے بعد مَیں حسبِ قانون جوڈیشنل مجسٹریٹ صاحب سوات کی عدالت میں پہلی مرتبہ بطورِ خودمختار وکیل پیش ہوا، تو سانس اٹک رہی تھی۔ دل کی دھڑکن تیز تھی۔ ہر شے دو، دو دکھائی دے رہی تھی۔ وکالت سے زیادہ اپنی عزت کی فکر ہونے لگی تھی۔ پھر اچانک کسی کی وہ بات یاد آگئی کہ جنگل میں شیر اور عدالت میں وکیل کا مترادف کوئی نہیں ہوتا۔ اسی بہانے دل کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ کیوں کہ کسی نے سچ کہا ہے کہ خوش فہمی بھی ایک نعمت ہے۔ انسان بلا وجہ مطمئن سا رہتا ہے۔ بہرحال میں ڈائس پر کھڑا ہوگیا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ عطاء الرحمان صاحب تشریف فرما تھے۔ جج صاحب کے سامنے مسئلہ بیان کیا۔ ان کا رویہ انتہائی مثبت تھا۔ کیوں کہ ایک زمانے میں وہ خود بھی نئے وکیل تھے اور انہوں نے بھی ایسے حالات کا سامنا کیا ہوگا۔ چار، پانچ سوالوں کے تسلی بخش جوابات دے دیے، جس کے فوراً بعد انہوں نے تھانے والوں کو حکم جاری کیا کہ موٹر سائیکل کو اس کے مالک کے حوالہ کیا جائے۔
قارئین، اپنی رام کہانی لکھنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ جس چیز سے ڈر لگتا ہے، اس سے بھاگنے کی بجائے اس کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے۔ ”لوگ کیا کہیں گے!“ کو نظر انداز کر کے اپنے راستے پہ گامزن رہیے اور اپنے لیے ترقی کے راستے خود بنائیں۔
یاد رکھیں، آپ کو آگے دیکھنے والا پوری دنیا میں صرف ایک شخص ہے، آپ کو ہاتھ دینے والا پوری دنیا میں صرف ایک شخص ہے اور وہ آپ خود ہیں۔ اسے لیے دائیں بائیں یا آگے پیچھے دیکھنے سے بہتر ہے کہ اپنا راستہ ناپیے۔
مستقبل آپ کی قدم بوسی کے لیے بانہیں کھولے کھڑا ہے۔