تحریر:خان فہد خان
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات محض سفارتی یا رسمی نہیں، بلکہ یہ عقیدت، اعتماد اور برادرانہ رشتے کی ان گہرائیوں میں پیوست ہیں جنہیں وقت اور حالات مزید مضبوط کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کو مشکل گھڑی میں سہارا دیا، چاہے وہ تیل کی رعایتی فراہمی ہو، مالی امداد ہو یا عالمی فورمز پر پاکستان کا مقدمہ لڑنا ہو۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی سعودی عرب کو اپنا قریبی دوست اور مسلم دنیا کی قیادت کا مرکز سمجھا ہے۔ لاکھوں پاکستانی ہنر مند اور مزدور سعودی سرزمین پر محنت کر کے دونوں ملکوں کی معیشت کو سہارا دیتے ہیں جبکہ ہر پاکستانی کے دل میں حرمین شریفین کی محبت اور تقدس کی وجہ سے اس رشتے کو مزید تقویت ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات وقت کی ہر آزمائش میں مزید مضبوط ہوئے ہیں۔اب جبکہ دنیا نئے اتحادوں اور صف بندیوں کی طرف بڑھ رہی ہے، پاکستان اور سعودی عرب نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اپنے تعلقات،دفاعی معاملات اور سلامتی سے متعلق ’باہمی دفاع کے سٹریٹجک معاہدے ”جوائنٹ سٹریٹجک ڈیفنس ایگریمننٹ“پر دستخط کیے ہیں۔ جس کے تحت کسی ایک ملک کے خلاف بیرونی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے17 ستمبر، بدھ کی شام سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اس معاہدے پر دستخط کیے۔یہ معاہدہ دفاعی تعاون، عسکری تربیت، ہتھیاروں کی تیاری اور سکیورٹی حکمت عملی کے تبادلے پر مشتمل ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان اپنی دفاعی صنعت اور فوجی مہارت سعودی عرب کے ساتھ شیئر کرے گا جبکہ سعودی عرب اپنے مالی وسائل اور جدید دفاعی سازوسامان کے ذریعے اس تعلق کو مزید مؤثر بنائے گا۔ یہ شراکت نہ صرف دونوں ممالک کی سلامتی کے لیے نیا حصار ثابت ہوگی بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی نئی جہت دے گی۔اس معاہدے سے پاکستان کی معیشت پر بھی کئی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ سب سے پہلے پاکستان کی دفاعی صنعت کی ترقی یقینی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ دہائیوں میں اپنی دفاعی پیداوار جیسے جہاز، ڈرون، میزائل اور ٹینک کی تیاری میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ اب سعودی عرب کے ساتھ تعاون سے یہ صنعت مزید فروغ پائے گی۔جس کے نتیجے میں پاکستان کی دفاعی برآمدات میں اضافہ ہوگا اور قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوگا۔مزید برآں سعودی عرب کے ساتھ بڑھتا ہوا تعاون براہ راست سرمایہ کاری (FDI) کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔ سعودی عرب پہلے ہی پاکستان میں آئل ریفائنری اور توانائی کے منصوبوں میں دلچسپی لے رہا ہے اور دفاعی معاہدے کے بعد اعتماد کی فضا ء میں یہ سرمایہ کاری مزید بڑھ سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف صنعتی شعبے کو تقویت ملے گی بلکہ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ دفاعی شعبے کے نئے منصوبے اور سعودی عرب کے ساتھ ٹیکنالوجی ٹرانسفر سے ہنر مند انجینئرز، سائنسدانوں اور ٹیکنیشنز کے لیے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔ اس سے برین ڈرین میں کمی اور ملکی افرادی قوت کے بہتر استعمال کی راہ ہموار ہوگی۔مجموعی طور پر یہ معاہدہ معاشی سطح پر پاکستان کے لیے تیل کی رعایتی فراہمی، تجارتی حجم میں اضافہ اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے توانائی کے بحران کے حل میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس طرح یہ دفاعی شراکت محض عسکری تعاون نہیں بلکہ پاکستان کی مجموعی معیشت کے استحکام اور ترقی کا ایک نیا باب ثابت ہوگا۔اس معاہدہ کے بعد عالمی صورت حال کا جائزہ لیں تو کئی ممالک کیلئے یہ معاہدہ بے چینی کا باعث ہے۔ سب سے پہلے امریکہ کے لیے یہ معاہدہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ واشنگٹن طویل عرصے سے سعودی عرب کو اپنا قریبی اتحادی سمجھتا رہا ہے اور اس کے تیل اور دفاعی معاملات پر اپنی گرفت قائم رکھے ہوئے تھا۔ مگر اب ریاض کا پاکستان جیسے ایٹمی طاقت کے ساتھ کھڑا ہونا اس گرفت کو کمزور کر رہا ہے۔ امریکہ کو یہ بھی اندیشہ ہے کہ اس تعاون سے پاکستان کی دفاعی صنعت اور معیشت دونوں کو نئی طاقت ملے گی، جو خطے میں امریکی مفادات کے لیے رکاوٹ بن سکتی ہے۔اس ہی طرح پاک،سعودیہ جوائنٹ سٹریٹجک ڈیفنس ایگریمنٹ بھارت کے لیے بھی انتہائی تشویشناک ہے۔بھارت خطے میں خود کو واحد طاقت کے طور پر منوانا چاہتا ہے اور پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ مگر سعودی عرب جیسے اہم ملک کا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا بھارت کی ان کوششوں کو ناکام بنا رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دفاعی معاہدے کے نتیجے میں اگر پاکستان کی معیشت کو تقویت ملتی ہے، برآمدات بڑھتی ہیں، تیل اور توانائی پر رعایتی سہولتیں ملتی ہیں اور سعودی سرمایہ کاری آتی ہے تو یہ براہِ راست بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ ایک مضبوط معیشت کے ساتھ پاکستان دفاعی اور تکنیکی میدان میں بھی زیادہ خودکفیل ہو جائے گا، جو بھارت کی اس پالیسی کو کاری ضرب لگائے گا جس کے تحت وہ پاکستان کو کمزور اور معاشی طور پر غیر مستحکم رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔یوں یہ دفاعی شراکت بھارت کے لیے صرف ایک عسکری چیلنج نہیں بلکہ ایک معاشی اذیت بھی ہے، کیونکہ ایک خوشحال اور مستحکم پاکستان اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔یہ دفاعی شراکت صرف پاکستان اور سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے ایک نیا اعتماد اور نئی امیدہے۔جو اس بات کا اعلان ہے کہ مسلم دنیا کے اہم ممالک اب اپنی سلامتی کے معاملات میں دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے خود ایک دوسرے کے دست و بازو بننے کی راہ پر گامزن ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے لیے یہ معاہدہ یقیناً ایک تشویش ناک اشارہ ہے، کیونکہ اس سے خطے میں وہ پرانا طاقت کا توازن بدلتا دکھائی دیتا ہے جس پر وہ برسوں سے قابض تھے۔ اگر اس اتحاد کودفاعی حکمت عملی اورطویل مدتی مشترکہ معاشی منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے تو نہ صرف خطے میں استحکام آئے گا بلکہ دنیا کے سیاسی نقشے پر ایک نئی طاقت کا اضافہ بھی ہوگا۔
عنوان:پاک،سعودیہ دفاعی معاہدہ اور امریکہ، بھارت میں بے چینی














