سلیمان ایس این

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شمالی علاقے میں واقع وادیِ سوات اپنی دلکشی اور پرفضا ماحول کی وجہ سے ملک بھر سے بڑی تعداد میں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی رہی ہے لیکن اب یہ وادی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے سنگین مسائل میں الجھ گئی ہےاور اس کی سیاحتی خوبصورتی ماند پڑنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

وادی سوات کے صدر مقام مینگورہ کی بے ہنگم ٹریفک اور اس کا شور،دریائے سوات کے کنارے غیر قانونی تعمیرات اس سے بھی زیادہ بے ترتیب، نکاسئ آب بھی ایک درد سر اور پینے کا صاف پانی ندارد۔ یہ ہیں وہ مسائل جنہوں نے ملک کی دیگر آبادی کے بڑے مراکز کی طرح آج کل تقریبا چھ لاکھ نفوس کے اس شہر کو بھی اپنے چنگل میں پھنسا رکھا ہے۔

شہر میں سے گزرنے والے دو بڑی نہریں ماضی میں لوگوں کے لئے تفریحی مقام تھیں۔ لیکن اب اس کے گرد نجی ہسپتالوں ،دکانوں اور ورکشاپوں کی تعمیر نے ان نہروں کو نہ صرف گندہ کر دیا بلکہ اس سے تفریح کا عنصر بھی چھین لیا ہے۔

وادیِ سوات ملک کا ایک بڑا سیاحتی مرکز مانا جاتا ہے۔ لیکن ہوٹل کی صنعت سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ علاقے میں انتہائی تنگ سڑکیں اور ٹریفک جام سیاحوں کو اس علاقے سے دور رکھ رہی ہیں۔ مینگورہ کے ایک ہوٹل منیجر شاکر خان کا کہنا ہے کہ وادی سوات کا سیدو شریف ائر پورٹ بھی گیارہ ستمبر کے واقعات کی وجہ سے بند پڑا ہے جس کی وجہ غیر ملکی سیاح بہت کم وادی کا رخ کرتے ہیں۔

اس شہر کی حالت دیکھ کر اس کے ایک باسی خیر محمد استاد صیب کو ریاست سوات والا ماضی یاد آگیا۔ ’والیِ سوات کے وقت میں اسلام آباد سے مینگورہ تک شاندار شاہراہ ہوا کرتی تھی، تعلیم اور صحت مفت تھی اور سب مطمئن تھے لیکن اب ہم سخت پریشان ہیں۔ ہم برباد ہوچکے ہیں۔

ملک میں بلدیاتی نظام میں تبدیلیاں اس امید کے ساتھ لائی گئی تھیں کہ اس سے کوئی بہتری آئے گی۔ لیکن مقامی حکومتوں کے نظام جن افراد کو سامنے لایا ہے وہ فنڈز ہونے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ لوگوں کے خیال میں منتخب نمائندے وہ کام بھی نہیں کر سکے جن کے لئے کسی رقم کی ضرورت نہیں ہوتی مثال کے طور پر ٹریفک کے نظام کو منظم کرنا۔

ایک سروے کی مطابق مینگورہ کی آبادی انیس سو اکاسی سے انیس سو اٹھانوے کے درمیان دگنی سے بھی ذیادہ ہوگئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مینگورہ نے سن انیس سو پچاس میں ایک چھوٹے سے گاؤں سےاب تک ایک بڑے شہری مرکز میں تبدیل ہونے میں حیران کن تیزی دکھائی ہے۔ اتنی تیزی کہ اس کا انتظام چلانے والے اس سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر حکام نے اس سلسلے میں کوئی چُستی نہ دکھائی تو خدشہ ہے کہ یہ پرفضا مقام بھی ملک کے دیگر شہروں سے زیادہ مختلف نہیں رہے گا۔