واپس جوڑ اُودہ بخت د پختو راغلے دے
دا شوق چی پہ زلمو کی د پختو راغلے دے
بابائے غزل حمزہ خان شنواری نے بہت عرصہ پہلے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ شاید پختونوں کا سویا ہوا مقدر جاگ گیا ہے۔ کیوں کہ جوانوں میں اپنی زبان ”پشتو“ کے بارے میں ایک نیا شوق اور جذبہ بیدار ہوگیا ہے۔
سعید اللہ خادم صاحب نے ”اداگانے د قلم“ (قلم کی ادائیں) کے نام سے کتاب لکھ کر پختونوں کی سوئی ہوئی تقدیر کو جگانے میں اپنا قابلِ قدر کردار ادا کیا ہے۔ کتاب کے بارے میں محترم پروفیسر عطاء الرحمان عطا صاحب فرماتے ہیں: ”سعید اللہ خادمؔ نے پشتو املا اور رسم الخط کے بارے میں مختصر مگر جامع ذکر کے بعد پشتو زبان کے نئے املا پر خصوصی توجہ سے جائزہ لیا ہے اور پھر اس کے متعلق تفصیل سے نمبر وار بارہ گلی کے فیصلوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ نہایت باریکی سے اُن فیصلوں کے بارے میں اہم سوال اٹھائے ہیں جو ایک بار پھر پشتو ادب اور پشتو زبان کو سیکھنے والوں کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ میرے خیال میں پشتو زبان اور پشتو ادب سیکھنے والے ان سوالات کے جوابات کو سمجھ جائیں، تو پشتو کے نئے املا پر سمجھنا اُن کے لیے آسان ہوجائے گا۔“
قارئین کرام! الفاظ اور تراکیب وقتاً فوقتاً بدلتے رہتے ہیں۔ نئے بھی بن چکے ہیں، کچھ پرانے بھی ہوگئے ہیں۔ اشارے، کنایے، استعارے، لہجے، رویے اور زاویے ادبی سماجیات میں اپنی اپنی جگہ پر اپنی شناخت کے ساتھ پہچان رکھتے ہیں اور تسلیم بھی ہوچکے ہیں۔ اس طرح پشتو زبان نے لفظی، صوتی، صوری اور معنوی لحاظ سے صدیوں کا سفر طے کیا ہے۔ وقت بہ وقت اور عہد بہ عہد مختلف منازل طے کیے ہیں۔ بہت سے سماجی حالات کی بدلی ہوئی شکلیں دیکھی ہیں۔ اس لیے زبان نے اپنے ارتقائی عمل میں فکری رفتار سے بھی سفر کیا ہے اور اپنی سماجی زندگی کے دائرے میں عصری تقاضے پورے کیے ہیں۔ کیوں کہ فکر کو زنجیروں میں نہیں باندھا جاسکتا۔ حرف و صوت زندگی کی علامات ہیں۔ لفظ، ”لوظ“ کے معنی رکھتا ہے اور زبان، بیان کا وسیلہ ہے، تو پھر خاموشی کا کیا جواز ہے؟ دیکھنا یہ چاہیے کہ آج کے ساز کو کس آواز کی ضرورت ہے؟ کون سے الفاظ آج کی آواز گردانے جائیں گے اور کون سا شعر آج شعور کا مظہر ہے؟
محترم سعید اللہ خادمؔ کی کتاب ”اداگانے د قلم“ زبان کی مختلف صوتوں، ابتدائی خطوط کی اقسام اور حروف کی تاریخ کے حوالے سے بہت اہم کتاب ہے۔ عام زبانوں کی تاریخ، حروف کی ساخت، خطاطی کی درجہ بہ درجہ داستان سے لے کر موجودہ دور کی پشتو زبان کے قدیم و جدید املا تک کا سلسلہ بیان کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر شیر زمان سیمابؔ جیسے جو ہر شناس، کتاب کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ ”مَیں مانتا ہوں کہ خادم صاحب کی یہ فنکارانہ کاوش زبان سیکھنے والوں، املا اور خطاطی کے حوالے سے بہت کار آمد کتاب ہے اور پڑھنے والے تو کیا، زبان کے اساتذہ اور طالب علم تک اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں گے۔“
اس طرح ہمارے مشہور و معروف شاعر اور خطاط ابنِ خطاط شمس الاقبال شمس صاحب اپنے دیباچے میں تحریر فرماتے ہیں کہ ”خادم صاحب اگر چہ ایک اچھے ادیب، شاعر اور قلم کار ہیں، لیکن ساتھ ہی فنِ خطاطی کے اسرار و رموز سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ اس کی خطاطی بنا استاد کے پھر بھی اچھی ہے اور داد کے قابل ہے۔“
قارئین کرام! ”اداگانے د قلم“ میں فاضل مصنف نے خطِ نسخ اور خطِ نستعلیق کی تعریف اور تاریخ کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اپنی گذارشات میں خادم صاحب کچھ اس طرح رقم طراز ہیں کہ ”اس کتاب میں میری یہ کوشش ہر گز نہیں تھی کہ مَیں پشتو زبان کے املا کے بارے میں کچھ تحریر کروں، بلکہ میری کوشش یہ تھی کہ پشتون عوام کو یہ ثابت کروں کہ خطِ نسخ کو نسخ اور خطِ نستعلیق کو نستعلیق کیوں کہا جاتا ہے؟ پھر چند سال بعد اس بارے میں ایک چھوٹے سے کتابچے کے شائع کرنے کا خیال کے آتے ہی مَیں نے اپنے دوستوں ڈاکٹر بادشاہ علی اور عطاء الرحمان عطا کے ساتھ مشورہ کیا۔ عطا صاحب کے اس مشورے سے مجھے کافی فائدہ پہنچا کہ اس ساری کہانی کا عربی خط سے آغاز کردوں۔“
قارئین، پھر تو خادم صاحب نے اپنے فن اور قلم کے ذریعے نقطوں کی ایجاد سے لے کر اعراب لگانے کی پوری تفصیل تاریخ درجہ بہ درجہ ضبط تحریر میں لا دی۔ اس میں بنو اُمیہ، بنو عباس سے لے کر خاندانِ غلاماں، مغلیہ دور حکمرانی سے ہوتے ہوئے برصغیر پاک و ہند کے علما و اولیا کے کار ہائے نمایاں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ تفصیلی سلسلہ عربی سے فارسی اور فارسی سے اُردو اور پھر پشتو رسم الخط تک گویا ایک ادبی اور لسانی تحریک ہے۔ اس سلسلے میں با یزید انصاری کی کوششوں کو بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے حروف کے فرق کو جو لفظوں سے واضح کیا جاسکتا تھا، کیا اور جو حروف نقطوں سے واضح نہیں ہوسکتے تھے اُن کے نیچے کنڈے لگا دیے۔ خادم صاحب فرماتے ہیں کہ ”بایزید انصاری کے وقت تک پشتو کی مخصوص آوازوں کے لیے کوئی تسلیم شدہ علامات نہیں تھے۔ یہ تو بایزید انصاری کی غیر معمولی ذہانت کی نشانی ہے کہ انہوں نے پشتو کے تمام لہجوں کی آوازوں پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی۔“
اس نایاب اور قیمتی کتاب میں سعید اللہ خادمؔ صاحب نے پشتو تحریر اور ترتیب کے بارے میں بارہ گلی کے تمام اہم اجلاسوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ املا اور الفاظ کی ادائی کے حوالے سے پشتو زبان کے محققین اور دانشوروں کے درمیان اختلافات پر بھی تفصیلی سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس حوالے سے پشتو اکیڈمی پشاور کی کاوشیں بھی قابلِ تحسین ہیں۔ انہوں نے کئی لسانی سیمیناروں کے علاوہ 27 دسمبر 2016ء کو دو روزہ سیمینارکا انعقاد کیا تھا، جس میں ”پشتو لیک، دود، املا“ کے بارے میں تقریباً پچاس دانشوروں اور پشتو ماہرینِ لسانیات نے شرکت کی تھی۔ کتاب میں بارہ گلی اجلاس کے سترہ عدد فیصلوں کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے جس میں پشتو تحریر، زبان و بیاں، عربی، فارسی سے مختلف کلمات کی پشتو میں منتقلی کا ذکر تفصیل سے دیا گیا ہے۔ ایک جیسے حروف کے متصادم معنی، الفاظ کے درمیان بولتے وقت فرق کو کیسے ظاہر کیا جائے گا؟ غرض کسی ترتیب کو نظر انداز کیے بغیر ہر چھوٹے، بڑے فرق اور امتیاز کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پشتو زبان کے مخصوص حروف جو دوسری زبانوں سے پشتو زبان کو الگ کردیتے ہیں کا تفصیلی بیان موجود ہے۔ حروفِ علت کے تفصیلی ذکر کے ساتھ ساتھ پشتو املا کے بارے میں بعض ضروری سوالات کے جوابات تفصیلاً بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کلمات میں بہت مہارت سے واوِ معروف و مجہول اور واوِ معدولہ کی پہچان بیان کی گئی ہے۔
اس طرح مشہور مسلمان سلاطین کا قرآنِ شریف کی کتابت، خطاطی کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔ جن میں سلطان ناصر الدین، سلطان محمد خان شہید، خلجی خاندان کے شاہوں کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ سلطان محمد تغلق کی خطاطی کو فنِ خطاطی کے بڑے ماہر استاد حیران ہوتے تھے۔ فنِ خطاطی کی سرپرستی کے حوالے سے ہندوستان کے مشہور لودھی خاندان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ مغلیہ دورِ حکومت بھی فنِ خطاطی کے لیے عروج کا دور تھا۔ اکثر مغل حکمران خود بھی خطاط تھے، یا خطاطی کے بہت شوقین تھے۔
انگریزوں کے دور میں رسم الخط اور زبانوں کے حوالے سے باقاعدہ عربی، فارسی رسم الخطوں کے خلاف تحریکیں چلائی گئیں، تاکہ مسلمانوں کو ہر لحاظ سے اپنی علمی، ادبی اور فنی اثاثوں سے محروم کیا جائے۔
کتاب میں فنِ خطاطی کے نمونے بھی دیے گئے ہیں۔ خطِ نسخ اور نستعلیق کی مثالی خطاطی کے نمونے بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں سے اکثر ہمارے دوست شمس الاقبال کے فنکارانہ ہاتھوں کا کمال ہیں۔
خطاطی کے لیے خادم صاحب کے کلام کا انتخاب قابلِ داد ہے۔ حروف کی اقسام اور اقسام کی تعریف تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ قلم کی اطراف اور اقسام کا تفصیلی ذکر ہے۔ نیز رموزِ اوقاف اور اُس کی علامتوں کے استعمال کے بارے میں تفصیل دی گئی ہے۔
کتاب کے آخر میں ”سوات اور خطاطی“ کے باب میں ریاستِ سوات سے لے کر ضلع سوات تک میں تمام خطاطوں کا ذکر ہے۔ اُن کے پس منظر، خاندانی سلسلوں اور حالاتِ زندگی کا مختصر تعارف بیان کیا گیا ہے۔ تقریباً 26خطاط شخصیات کے حالاتِ زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے، جن میں حاکم عزیز الرحمان، مرزا محمد اکبر، مولوی عبدالغفار، میاں نظیر جان، فضل الرحمان فیضان، مہر النسا بانو بی بی سے لے کر محمد ادریس، عبدالرحیم روغانےؔ، رحیم شاہ رحیمؔ، شمس الاقبال شمسؔ، ہمایوں مسعود، محمد حنیف قیسؔ، فضل ربی راہیؔ، محمد نذیر، مراد آرٹسٹ، عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ تک شامل ہیں۔
یہ کتاب مجموعی طور پر ادب، لسانیات، حروف و الفاظ، اعراب، نقاط، اقسامِ خطوط، رموزِ اوقاف، اقسامِ علت، غرض ہر قسم کی خطاطی کا ایک گنجینہ ہے۔ کالم کی تنگ دامنی کے سبب مَیں کتاب کے جملہ اوصاف کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ سعید اللہ خادمؔ صاحب کی کاوشیں اور معلومات قابل ستائش و تحسین ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی انگلیوں کو سلامت رکھے۔ علم و قلم میں برکت ڈالے۔ مَیں اُسے اس کاوش پر مبارک باد دیتا ہوں۔
”اداگانے د قلم“ سفید کاغذ کے 256 صفحات پر مشتمل مجلد، جاذبِ نظر ٹائٹل کے ساتھ اس خوبصورت کتاب کو شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز سوات مارکیٹ جی ٹی روڈ مینگورہ نے شائع کیا ہے جو اپنی معیاری کتابوں کی اشاعت کے لیے مشہور و معروف ادارہ ہے۔ 380 روپے کے عوض یہ کتاب خریدنا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ ہر استاد، ہر طالب علم اور ہر لائبریری کے لیے یہ کتاب اپنی معلومات اور فنی موضوعات کے حوالے سے ضروری ہے۔ ”تحفتاً“ کتاب دینے کے لیے خادمؔ صاحب کا مشکور ہوں۔ آخر میں سعید اللہ خادمؔ صاحب کے ایک شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
آدم تہ کہ سجدہ کڑے ملائیک د آسمانونو
عالم تہ محقق تہ پیغمبر تہ پہ سجدہ دی