اسحاق میاں

سوشل میڈیا اگر چہ دورِ جدید کی ضرورت بن چکا ہے، مگر بعض احباب کی فیس بک وال اور دوسرے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ان کے گندے اور غلیظ خیالات، بے ہودہ اور گھٹیا قسم کی سوچ کی عکاسی پر مبنی پوسٹ شیئر کرنے کے سبب سوشل میڈیا ’’اَن سوشل میڈیا‘‘ دکھائی دیتا ہے۔بعض حضرات اگر چہ پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے اور ذمہ دار شہری معلوم ہوتے ہیں، مگر اپنی فیس بک ٹائم لائن پر پوسٹ شیئر کرتے وقت وہ منفی جذبات کے بہاؤ میں ایسے بہ جاتے ہیں کہ اپنی تمام تر خوبیاں کو گہنا دیتے ہیں۔ ایسا نفرت آمیز اور شرانگیز مواد ان کی ٹائم لائن پر دیکھنے کو ملتا ہے جس سے ان کے قد کاٹھ اور عزت و وقار میں کمی آجاتی ہے۔سیاسی رہنماؤں کی بے توقیری پر مشتمل تصاویر، حقارت پر مبنی جملے، نفرت اور غصے کا اظہار ان کے ٹوئٹر، فیس بک وال اور دوسرے سوشل میڈیا ذرائع پر نمایاں ملتا ہے۔ کثیر تعداد میں ایسے پیج موجود ہیں جن کا کام ہی ’’فیک نیوز‘‘ دینا، ملکی مفاد کے خلاف بیانات، ذو معنی الفاظ، اشعار، تحاریر اور تصاویر شیئرکرکے نفرت پھیلانا ہوتا ہے۔ انہیں بڑے شوق سے ایسے لوگ جنہیں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کا علم ہی نہیں ہوتا، بے دھڑک شیئر کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کارِ خیر میں ماشاء اللہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت ان کے جوشیلے کارکنان ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں، بلکہ الٹا اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔عام سیاسی پارٹیاں اور ان کے کارکنان کو تو چھوڑئیے……تمام دینی و مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکنان کیوں کر کسی سے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ معیوب کام وہ بھی بڑی خوش اسلوبی سے بلکہ اپنا مذہبی و اسلامی فریضہ سمجھ کر دوسرے سیاسی کارکنان سے دو ہاتھ آگے ہیں اور بزعمِ خود اجرِ عظیم کی امید وابستہ کیے ہوئے ہیں۔بلا شبہ اگر ایمان داری اور دیانت داری سے مخلوقِ خدا کی خدمت سمجھ کر سیاست کی جائے، تو یہ عبادت کا درجہ پاتی ہے، لیکن اگر یہی سیاست محض اپنی خواہشات کی تکمیل، حرام مال کمانے کا ذریعہ، شہرت کے لیے اعلا حکومتی اور تنظیمی عہدوں کا حصول، اہل و عیال کی شہ خرچیوں اور ان کی عیاشیوں اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ جائے، تو وہ سیاست جو عبادت تھی، جو انبیا و صلحا کی روش تھی، گناہِ کبیرہ، بہتانِ عظیم اور ذلت و رسوائی کا سبب اور غلیظ گالی بن جاتی ہے۔ اس کے چھینٹوں سے بھی خود کو بچانا جزِ ایمان اور ذریعہ نجات ہے۔بدقسمتی سے پاکستانی سیاست، غلاظت کا ڈھیر بن چکی ہے اور اس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں برابر کی شریک ہیں۔اب سوشل میڈیا نے ان سب کے چہروں سے پردہ ہٹا دیا ہے۔ کسی جماعت کے رہنما نے اپنے کارکنوں کے اس معاملے میں تربیت ہی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں ہر وقت اور ہر سوں افراتفری ہی نظر آتی ہے۔ کیوں کہ منفی خبروں کی بھر مار میں مثبت افکار دب جاتے ہیں۔ من حیث القوم ہم ’’منفی ازم پسند‘‘ اقوام کی صف میں کھڑے ہیں ۔بے شک یوم الحساب کو ذرے ذرے کا حساب لیا جائے گا، اپنے فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا اکاونٹس کو اتنا ہلکا ہرگز مت لیں۔ یہ بھی ہم سب کا اعمال نامہ ہی ہے۔ اس کا بھی ہم سب سے حساب لیا جائے گا۔ روزِ محشر کوئی بھی انسان کسی اور کے کام نہیں آئے گا۔ ہر شخص اپنے اعمال خیر اور نیک کاموں کی وجہ سے نجات پائے گا۔ لہٰذا برائی کی اس دلدل سے جتنی جلدی ممکن ہو، نجات حاصل کیجیے۔سیاست کیجیے…… مگر پاک و صاف، شفاف، بامعنی، اسے عبادت سمجھ کر کیجیے، ملک و قوم کی اصلاح و بہتری کے لیے کیجیے، ہر قسم کے ذاتی مفادات سے مبرا اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاست کیجیے، اپنی شخصیت، قدر و منزلت، عزت اور وقار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نیک مقصد کے حصول کے لیے سیاست کیجیے۔خود کو کم از کم اُس اخلاقی پستی اور زوال کا شکار مت ہونے دیں جس میں آج کل ہر کوئی مبتلا ہے ۔اپنی اپنی ٹائم لائن پر بھی اور ایک دوسرے کی ٹائم لائن اور مختلف پیج جنہیں آپ نے پسند کر رکھا ہو، پر بھی کبھی کبھار طائرانہ نظر ڈالا کریں کہ کیا وہ ٹائم لائن اس قابل ہیں کہ اللہ کا کوئی بندہ اس میں سے خیر اور بھلائی تلاش کرسکے؟کیا ہم اپنی سوشل میڈیا ٹائم لائنز کے ساتھ اللہ کے حضور روزِ محشر سامنا کرسکیں گے……؟ اگر نہیں، تو وہ سب کچھ ختم کیجیے، جو قابلِ گرفت ہے۔ قبل اس کے کہ ملک الموت سے سامنا ہوجائے اور موت مہلت ہی نہ دے۔ فیس بُک و دوسرے سوشل میڈیا پر آپ کا شیئر کیا ہوا مواد آپ کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ بھی ایک عمل ہے اور ضرور اس عمل کو ہمارے سامنے بھی پیش کیا جائے گا، تو اپنا اعمال نامہ مزید خراب ہونے سے بچا لیجیے۔ کیوں کہ بہرحال اللہ کے حضور اس کا حساب تو دینا ہی ہوگا۔ لہٰذا سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا کریں اور اسے نفرت اور منفی پروپیگنڈا کا ہتھیار امت بنائیں۔