ایڈوکیٹ صیّاد حُسین ترکئ

منشیات کا نشہ ایک بد ترین نشہ ہے جو سکون کے دھوکے سے شروع ہوتا ہے اور زندگی کی بربادی پر ختم ہوجاتا ہے۔مذاہب عالم میں فوقیت و برتری کے حامل دین اسلام تمام نشہ آور چیزوں کے استعمال سے ممانعت کا حکم دیتا ہے اور حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے نشہ آور چیزوں کو حرام قرار دیا۔ قرآن مجید کے احکامات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو قرآن مجید میں اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے کئی بار نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے لیکن نشہ کی حالت میں رہنے والے لوگوں کو اپنی عبادت بالخصوص نماز ادا کرنے سے منع کرتے فرمایا ہے ۔فرمان الٰہی ہے:اے ایمان والو جب تم نشے کی حالت میں ہوں تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ سکو ۔(النساء:43)-لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں منشیات کا استعمال روز بروز بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 80 لاکھ افراد نشے کے مضر مرض میں مبتلا ہیں اور اس رپورٹ کے مطابق اس تعداد میں ہر سال تقریباً 40 ہزار افراد کا اضافہ ہوتا ہے جس میں 70 سے 80 فیصد تک مرد اور 20 سے 30 فیصد تک خواتین شامل ہیں ۔ہمارے معاشرے میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان نفسیاتی مسائل جیسے سنگین خطروں اور پریشانیوں کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔پاکستان میں بطور نشہ کئی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں جس میں سگریٹ،چرس،ائس،شیشہ،شراب،افیوم،ہیروئن،بھنگ،کرسٹل،صمدبانڈ،کیفین اور نشہ آور انجیکشنز و ادویات شامل ہیں۔ایک ملک میں اگر نشے کا تناسب اس حد تک پہنچ جائے کہ ہر سال 4ملین تک لوگ اس تباہی کی طرف جاتے ہوں تو یہ تناسب ایک قوم کیلئے کسی خطرے سے کم نہیں۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں نشہ کے استعمال اور صحت پر اسکے مضر اثرات و بھیانک نتائج سے عوام کو آگاہ کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے جاتے۔پاکستان میں آئس ایران سے لائے جاتے ہیں جس کی اصل قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ملک کے اندرونی منشیات مافیاز اسمیں کئی خطرناک قسم کے کیمیکلز استعمال کرکے پھر عام عوام کو غیر قانونی طریقے سے فراہم کرتے ہیں اور عوام سے ناجائز کروڑوں روپے بٹورنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ایک ملک کی افرادی قوت کو کمزور کرانے کیلئے اس قوم میں منشیات کے استعمال کو عام کرنا بد ترین دشمن کا ہدف ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی ملک کے اندرونی و بیرونی عناصر پاکستان میں نشہ آور چیزوں کی فراہمی میں بھر پور کوشش کر رہےہیں۔ملک دشمن عناصر اور حاسدین ، عوام کے ہاتھوں غیر اسلامی،غیرقانونی اور غیر اخلاقی طور پر رقم بٹورنے کیلئے منشیات کی فراہمی میں سرگرم رہتے ہیں اور ہمارا معاشرہ اس کو نظر بد سے دیکھتے ہوئے برداشت کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ یہ ان کے گھروں تک پہنچ جاتا ہے ۔
منشیات نہ صرف آوارہ لوگ استعمال کرتے ہیں بلکہ آج کل تو سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات نے بھی اس کا استعمال بطور فیشن شروع کیا ہے یہ نشہ تعلیمی اداروں میں سکون کے دھوکے،فیشن اور شوق سے شروع ہوتے ہوئے آہستہ آہستہ شوق و فیشن سے ضرورت اور عادت بن کر ایک مضر اور خطرناک مرض بن جاتا ہے۔ہمارے ملک میں منشیات کے عام ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے والدین کی غفلت،غلط صحبت،مسائل سے ڈر،حقیقت سے فرار ہونے کی سوچ،مایوسی،محرامی،ناکامی ،بے روزگاری،مالی مسائل،اور خاندانی مسائل سر فہرست ہیں جس سے اکثر لوگ ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں اور سگریٹ،نسوار اور صمد بانڈ سے شروع کرکے پھر چرس،ائس اور شراب سے ہوتے ہوئے انجیکشنز اور خطرناک ترین حد تک پہنچنے پر اپنی زندگی اورمعاشرے کیلئے ناسور بن جاتے ہیں ۔منشیات کے استعمال سے نفسیاتی ماہرین اور ڈاکٹروں کے ذریعے اجتناب حاصل کرنے کے لئے حکومت کے اقدامات اور عوام کی توجہ اس پر لانے کی اشد ضرورت ہے۔منشیات کا استعمال ایک مرض ہے اور حکومت کو اس کی روک تھام کیلئے ہر خطے،علاقے یا ضلعے میں سنٹرز قائم کرنے چاہئیں اور اس میں نشہ کے عادی افراد کو مختلف ہنر مندی سے ہم کنار کرنے کے ساتھ ساتھ روزگار دینا چاہئیے اور عوام میں آگاہی مہم چلانی چاہیئے تاکہ عام عوام منشیات اور نشہ آور چیزوں کے خطرات،تباہی،بربادی اور اسکے بھیانک نتائج سے باخبر رہیں ،تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام اور اسکے خطرناک ترین نتائج سامنے لانے کیلئے سیمینارز اور مختلف پروگراموں کا انعقاد نہایت اہمیت کا حامل ہےاور ہمارے علماء کرام کو چاہیئے کہ اسلام کی روشنی میں منشیات کی روک تھام میں اپنا بھرپور کردار ادا کرکے لوگوں کو آگاہ کرنے اور منشیات کے استعمال اور کاروبار سے منع کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔