روح الامین نایاب
قارئین! ایک عرصے سے انگریزی ادب کے فن پاروں کے پشتو زبان میں ترجمے ہو رہے ہیں۔ ادب کے لحاظ سے سرزمینِ سوات کافی زرخیز واقع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ہمدرد یوسف زئی اور عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ نے اس حوالے سے انگریزی ادب، فرانسیسی اور عربی ادب کے ساتھ ساتھ کلام کا منظوم ترجمہ کرکے ایک اچھی اور نئی روایت کی طرح ڈالی ہے۔
عالمی ادب میں ترجمے کی روایت نے علم کو وسعت دی ہے۔ علوم کو ایک طرح سے یک جا کردیا ہے۔ تہذیب و تمدن کو پھیلانے اور انسانی تہذیبوں کی پہچان میں ترجمے نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے دوست ہمایوں مسعود نے ’’البرٹ کامو‘‘ (Albartcomus) کے ناول“The Stranger”کا پشتو ترجمہ ’’ماورا‘‘ کے نام سے کرکے ایک اہم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
ہمایوں مسعود ایک ہمہ گیر مگر ترقی پسند لکھاری ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے فکشن میں پشتو ادب کو ’’رشتے‘‘ کے نام سے افسانوں کا ایک بہترین مجموعہ بہ طورِ تحفہ دیا ہے…… جب کہ وہ پشتو میں بہت اچھی اور نازک شاعری کرتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ایک پشتو شعری مجموعہ ’’ستا د یاد وگمی خوری شوی‘‘ شایع کرکے اپنے بہترین شاعر ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔
علاوہ ازیں وہ پشتو اور انگریزی میں بہترین اصلاح کار کی ذمہ داریاں نبھاتے رہتے ہیں۔ ڈھیر ساری انگریزی اور پشتو کتابوں میں املا کی درستی کرتے رہتے ہیں۔
اپنی ابتدائی عمر سے یورپی ممالک میں کافی عرصہ گھوم پھرچکے ہیں۔ لہٰذا ان کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب پر بھی کافی عبور حاصل ہے۔
وہ اکثر سوشل میڈیا پر انگریزی ادب کے منظوم کلام کا بہت اچھے انداز میں پشتو ترجمہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
“The Stranger”ماورا بہت دلچسپ ناول ہے۔ یہ البرٹ کامو کا پہلا ناول ہے جو 1942ء میں پہلے فرانسیسی زبان میں لکھا گیا تھا۔ پھر بعد میں 1946ء میں اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ 1957ء میں اسے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
اس ناول کامرکزی کردار جو اپنے داخل میں مکمل طور پر بیگانگی کا شکار ہے…… وہ دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزار رہا ہے…… لیکن پھر بھی نہ چاہتے ہوئے وہ ایسے معاملات میں پھنس جاتا ہے جس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ دنیا جو فطری دکھائی دیتی ہے…… دراصل مصنوعی اور بے بنیاد ہے۔
کردار کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ہاتھوں قتل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد بہ حیثیتِ قاتل، کردار کے اندر جو کشمکش شروع ہوجاتی ہے…… وہ اس کے اندر ایک ایسی بغاوت کو برپا کردیتی ہے کہ وہ اپنے آخری لمحات میں پادری سے ملنا بھی نہیں چاہتا۔ موت کی کوٹھڑی میں پادری کے ساتھ جو بات چیت ہوتی رہتی ہے…… وہ نہایت دلچسپ اور عجیب شکل اختیار کرتی رہتی ہے۔ وہ پادری کی باتوں کا صاف انکار کردیتا ہے۔ اپنے اندر سے اتنا مطمئن ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہر وقت…… بلکہ ازل سے ٹھیک اور مکمل سمجھتا ہے۔ لہٰذا اُسے کسی خدا یا کسی ’’ماورائی طاقت‘‘ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ وہ ایسی کسی طاقت کی مدد محسوس کرتا ہے۔
وہ موت کی کوٹھڑی میں اپنی پھانسی یا گلوٹین کے ذریعے اپنی موت کے بارے میں مختلف حالات و واقعات کے بارے میں سوچتا رہتا ہے…… جس کے لیے وہ اپنے آپ کو مختلف انداز میں تیار کرنے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ یہ سوچ مختلف زاویوں سے بدلتی رہتی ہے۔ یہ اگرچہ سوچ اور خیال ہے…… لیکن یہ خیال حقیقت کے بہت قریب ہوتا ہے۔ کیوں کہ موت کی کوٹھڑی میں ایک بند انسان جو اپنی موت کے انتظار میں پڑا رہتا ہے…… تو وہ موت ہی کے بارے میں سوچے گا۔
جو بھی ہو لیکن اس سوچ اور خیالی جنگ میں موت سے ڈر ایک اہم فیکٹر ہے…… لیکن جب وہ ایک بار یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مَیں نے مرنا ہے۔ کیوں کہ موت تو اٹل ہے…… پہلے یا بعد میں، تو پھر اُس کے دل سے تمام ڈر ختم ہوجاتا ہے اور وہ ایک سکون سا محسوس کرتا ہے۔
’’ماورا‘‘ ناول کا مرکزی اور اہم نقطہ یہ ہے کہ انسان اس کاینات کے تفاوات اور حادثاتی حالات کے آگے مجبور ہے۔ کیوں کہ ناول کا مرکزی کردار جس نا مناسب حالات میں پھنس گیا، اُس میں اُس کا کوئی کردار نہیں تھا، وہ مجبورِ محض تھا۔
ناول میں ماحول، روزمرہ کے حالات، عام اور خاص حالات میں لوگوں کے جذبات اور احساسات کی بہت حقیقی انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔
کتاب کے آغاز میں ماں کی موت اور دوسری تبدیلیاں اتنی آہستہ آہستہ آرہی تھیں کہ بعض اوقات قاری بوریت بھی محسوس کرلیتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمایوں مسعود نے ترجمہ بہت اعلا معیار کا کیا ہے۔ ترجموں میں موزوں الفاظ کا استعمال بہت اہم ہے۔ اس میں ’’چوں کہ‘‘، ’’چناں چہ‘‘ کی گنجایش نہیں ہوتی۔ ترجمے میں اصل زبان کے متن کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور ہمایوں مسعود نے اس کا خاص خیال رکھا ہے۔ وہ پورے ناول کے ترجمے میں ناول کے اصل متن سے دور نہیں گئے ہیں۔ ناول پڑھتے وقت احساس ہوتا ہے کہ ترجمے پر موصوف کی پوری گرفت ہے۔
اس ناول کو ’’مفکورہ‘‘ نے شایع کیا ہے اور مذکورہ ادارہ کتاب کی چھپائی میں اپنا ایک خاص معیار رکھتا ہے۔ اس لیے موجودہ کتاب بھی نہایت خوب صورت ہے۔خوب صورتی میں ’’سادگی‘‘ کا عنصر کافی زیادہ ہے۔
175 صفحات پر مشتمل یہ خوب صورت مجلد کتاب نہایت اہم اور دلچسپ ہے۔ یہ بلاشبہ پشتو ادب میں ایک قابلِ ذکر اضافہ ہے…… جسے مدتوں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مَیں ہمایوں مسعود صاحب کو اس خوب صورت کتاب کی اشاعت پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ موصوف کی اس طرح کی ادبی کاوشیں جاری رہیں گی۔
اہلِ سوات کو یہ کتاب مینگورہ شہر میں شعیب سنز اینڈ پبلشر جی ٹی روڈ مینگورہ، سوات مارکیٹ سے صرف 320روپے موزوں قیمت کے عوض مل سکتی ہے۔