فضل مولا زاہد

سوات، جو کبھی امن، علم اور خوش حالی کا گہوارہ تھا، آج شور و غوغا اور بدامنی کی علامت بن چکا ہے۔ یہ وادی اپنے بلند و بالا پہاڑوں کی دل کشی، جنگلات کی شادابی اور دریا کی روانی کے ساتھ ساتھ ایک درخشاں تہذیب و تمدن کی گواہ رہی ہے…… مگر اب یہ خطہ قدرتی آفات، انسانی چپقلشوں اور حکومتی بے حسی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا نے اِس دکھ کو تفریح میں بدل دیا ہے، جہاں ویڈیوز وائرل کرنے کی دوڑ میں نہ کسی واقعے کے اسباب پر غور کیا جاتا ہے اور نہ انجام پر، یوں تاریخ اور تہذیب کی بربادی پر سنسنی کا کاروبار غالب آ گیا ہے۔
ریاستِ سوات کا ذکر آتے ہی ایک منظم، پُرامن اور خوش حال دور کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ وہ دور جب والیِ سوات نے رعایا کو تعلیم، صحت، عدل اور مواصلات کا ایسا نظام دیا، جو آج بھی رشک سے یاد کیا جاتا ہے…… لیکن پاکستان میں ضم ہوتے ہی اس ریاست پر سرخ فیتہ کا غلبہ آگیا۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی، بارود اور بموں کی گھن گرج اور پہاڑوں کو مشینوں کا لقمہ بنانے کی روش نے اس وادی کی اصل پہچان کو زائل کر دیا۔ ریاستی دور کی بیش تر علامتیں مٹ گئیں اور جو باقی تھیں، وہ بھی زوال پذیر ہوگئیں۔ انھی میں ایک شان دار محل تھا، جو کبھی شان و شوکت کی علامت تھا…… مگر اَب شکستگی اور ویرانی کی تصویر بن کر دنیا کو اپنی عبرت ناک داستان سنا رہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل والیِ سوات کی دوسری بیگم نے اس محل میں اپنا حصہ ایک صوبائی وزیر کو فروخت کیا۔ خریدار نے مخصوص راستے کے بہ جائے محل کے مرکزی گیٹ کو استعمال کرنا چاہا، تو وارثوں نے اسے بند کر دیا۔ تنازع بڑھا اور حال ہی میں وزیر کے محافظوں نے گیٹ توڑ کر محل پر دھاوا بول دیا۔ حیرت ہے کہ یہ سب کچھ کمشنر اور ڈی آئی جی کے دفاتر کے عین سامنے ہوا، مگر انتظامیہ شاید ’’کاٹو تو لہو نہیں بدن میں‘‘ کی کیفیت میں مبتلا رہی۔
اس منظر نے ذہن کو انگلینڈ کے شہر اسٹراٹفورڈ اپان ایون کی طرف کھینچ لیا، جہاں شیکسپیئر کی یادیں آج بھی زندہ ہیں۔ وہاں پرانے اسکول کی عمارت میوزیم کے طور پر محفوظ ہے۔ لکڑی کا بھاری صندوق، استادوں کے یونیفارم اور صدیوں پرانے کمرے آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ وہ صندوق، جسے تین تالوں سے بند کیا جاتا تھا، اجتماعی اعتماد اور حفاظت کی علامت تھا۔ آج بھی ہزاروں سیاح 10 پاؤنڈ کا ٹکٹ خرید کر ماضی کی اس جھلک کو دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں جیسے شیکسپیئر اب بھی سانس لے رہے ہیں۔
سوچنے کا مقام ہے:ایک طرف وہ اسکول ہے، جو صدیوں بعد بھی سلامت ہے…… اور دوسری طرف ہمارا سوات ہے، جہاں بدامنی اور بے حسی نے تاریخی عمارتوں کو کھنڈرات میں بدل ڈالا۔ ایک محل باقی تھا، جس کے دروازے کو تختۂ مشق بنا کر ریاستی ورثے کی بہ بانگ دہل توہین کی گئی۔
زندہ قومیں اپنے ورثے کو محفوظ کرتی ہیں، جب کہ مردہ قومیں اپنی یادگاریں بیچ ڈالتی ہیں۔ ورثہ محض اینٹ اور پتھر کا ڈھیر نہیں، بل کہ ہماری شناخت ہے۔ اگر یہ مٹ گیا، تو آنے والی نسلوں کو ہم کیا بتائیں گے کہ ہم کس تہذیب کے وارث تھے؟ ایک گیٹ کا ٹوٹنا محض لوہے اور پتھر کا ضیاع نہیں، بل کہ تاریخ کے ایک صفحے کا مٹ جانا ہے۔
مختار مسعود لکھتے ہیں کہ 1957ء میں مشہور مورخ آرنولڈ ٹائن بی پاکستان آئے۔ ایک سیمینار کے بعد جب ایک افسر نے ان سے آٹوگراف لیا، تو ٹائن نے پوچھا: ’’آج ہجری کی کون سی تاریخ ہے؟‘‘ افسر خاموش رہے۔ ٹائن نے خود تاریخ لکھ دی اور کہا: ’’ابھی یہاں اسلام کے مستقبل پر تقریریں ہو رہی تھیں، لیکن جو اپنی تاریخ نہیں جانتے، وہ تاریخ کیسے بناسکتے ہیں؟ تاریخ تقریروں سے نہیں، عمل سے بنتی ہے۔‘‘
یہ واقعہ ہمیں آئینہ دکھاتا ہے کہ تاریخ سے غفلت صرف جہالت نہیں، بل کہ اپنی شناخت سے دست برداری ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ اس محل کو محفوظ ورثہ قرار دے، مالکان کو منصفانہ قیمت ادا کرے اور اس عمارت کو شیکسپیئر اسکول کی طرز پر محفوظ کرے۔ مقامی لوگوں اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے، تاکہ سیاحوں اور طلبہ کو ان یادگاروں کی سیر کرائی جا سکے اور نئی نسل اپنی تاریخ سے جڑ سکے ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم تاریخ کے محافظ بنیں گے، یا اس کے قاتل؟ شیکسپیئر کے وقت کا بھاری صندوق آج بھی سلامت ہے اور ہمارا محل ایک ٹوٹے گیٹ کی صورت ہماری بے حسی پر نوحہ کناں ہے۔
مر جاتے ہیں آثار کے مرنے سے تمدن
زندہ ہیں وہی قومیں جو ماضی کو سنبھالیں