پشاور میں سپریم کورٹ کے وکیل اور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کے درمیان جھگڑے اور وکیل کے ساتھ سکیورٹی گارڈز کی بدسلوکی اور ایف آئی آر کے اندراج کے بعد وکلاء برادری اور سرکاری ملازمین آمنے سامنے آ گئے، دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر ایف آئی آر ز کٹوائی گئی ہیں جب کہ نوبت عدالتی بائیکاٹ، ملازمین کی ہڑتال اور ڈپٹی کمشنر کے آفس میں توڑ پھوڑ تک جا پہنچی جس کے بعد مسئلہ مزید سنگین ہوگیا ہے اور پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ وکلاء اور سرکاری ملازمین صوبائی سطح پر ہڑتال پر ہیں، عدالتی بائیکاٹ آج بھی جاری رہے گا جب کہ ہڑتال کو مزید طول دینے کی بھی بازگشت ہے، تاہم وکیل اور افسر کے درمیان جھگڑے میں عام عوام رُل رہے ہیں کیونکہ عدالتی بائیکاٹ کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد جہاں ہزاروں کی تعداد میں مقدمات کی سماعت متاثر ہو رہی ہے وہیں سرکاری ملازمین کی ہڑتال سے بھی متعلقہ دفاتر میں امورٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور اختیارات کے غلط استعمال کا موضوع ہمیشہ سے زیربحث رہا ہے اور بدقسمتی سے 75 سال گزرنے کے بعد بھی ہم یہاں آئین وقانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں لیکن یہ جیسے ایک خواب بن کر رہ گیا ہو۔ بیشتر افراد کو تھوڑا بھی اختیار مل جائے تووہ اس کا غلط اوراپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں اور ملکی خراب حالات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ادارے اور افسران اپنی آئینی و قانونی حدود کے اندر رہ کر کام نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات بااثر اور طاقتور خودکو قانون سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں اور اسی وجہ سے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہو رہی ہے۔ اختیارات کا غلط استعمال لاقانونیت اور نا انصافی سمیت کئی مسائل کوجنم دیتی ہے، اس کی حالیہ مثال ایک سینئر وکیل غفران اللہ شاہ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے، جمعرات کی رات غفران شاہ ایڈووکیٹ چمکنی میں واقع ایک پٹرول پمپ میں پٹرول ڈالنے کے لئے گاڑی میں منتظر تھے جہاں پر پٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے رش لگا تھا، اس دوران متعلقہ پمپ میں ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر صدر سرکل آفتاب احمد بھی سرکاری گاڑی میں پہنچ گئے تھے جہاں قطار کی خلاف ورزی پر وکیل اور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنرکے درمیان تنازعہ پیدا ہوگیا جس کے بعد ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنرکے سرکاری گارڈز نے نہ صرف وکیل کے ساتھ بدسلوکی کی بلکہ ان کے کپڑے پھاڑ کر انہیں زبردستی پولیس وین میں ڈالا، دوسری جانب ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر نے الزام لگایا کہ وہ پٹرول پمپ پر چیکنگ کے لئے آئے تھے اور متعلقہ وکیل نے کار سرکار میں مداخلت کی اور ان کے ساتھ جھگڑا کیا، البتہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی گارڈز وکیل کو گاڑی میں دھکیل رہے ہیں اور ان کے کپڑے بھی پھٹے تھے، ان کی بے بسی ویڈیو میں نمایاں نظر ا رہی ہے۔ وکیل کو حراست میں لینے کے بعد حوالات میں بند کرکے ان کے خلاف مختلف دفعا ت کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
وکیل کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر وکلاء برادری نے سخت ردعمل ظاہرکیا اور جمعہ کے روز سے عدالتوں کے بائیکاٹ کا سلسلہ شروع کیا جب کہ اس حوالے سے سیشن کورٹ سے بھی رجوع کرتے ہوئے 22 اے کی درخواست دائر کی، ان کے وکیل ملک محمد اجمل خان ودیگر نے عدالت کو بتایا کہ وکیل سے گاڑی کی چابیاں اورموبائل چھین کر پھینک دیا گیا جس سے موبائل فون ٹوٹ گیا۔ واقعہ کی ویڈیو موجود ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سینئر وکیل کو نہ صرف جسمانی و ذہنی اذیت دی گئی بلکہ الٹا ان پر ایف آئی آر بھی کاٹ دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال پر متعلقہ افسر اور اہلکاروں سے پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔ عدالت نے اے اے سی سمیت ایس ایچ او چمکنی اوردیگر اہلکاروںکے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جس پر متعدد دفعات کے تحت ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ وکلاء نے پشاورہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رحمان اللہ اور ڈسٹرکٹ بار پشاور صدر علی زمان کی قیادت میں صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی ریلی بھی نکالی، وکلاء خیبر روڈ سے ہوتے ہوئے ڈپٹی کمشنر آفس پشاور پہنچے اور وہاں نعرے بازی بھی کی ، وکلاء کا مؤقف تھا کہ کسی افسرکو اختیارات سے تجاوز نہیں کرنے دیںگے، ہمارے ٹیکس سے انہیں تنخواہ ملتی ہے لہذا یہ عوام کے خادم ہیں ۔ ادھرڈپٹی کمشنر نے کمشنر پشاور ڈویژن کو ایک مراسلہ ارسال کیا اور سفارش کی کہ بعض وکلاء نے ڈی سی آفس میں گھس کر توڑ پھوڑ کی جس سے شیشوں کے دروازوں کو نقصان پہنچا لہذا ان کیخلاف ایف آئی آر درج کی جائے، مختلف آفیسرز اور ملازمین کی ایسوسی ایشنز بھی اس واقعہ کے بعد حرکت میں آگئی ہیں اور انہوں نے ہڑتال کا اعلان کردیا، سوشل میڈیا پر بھی ان کے درمیان سرد جنگ جاری ہے، پاکستان ایڈمنسٹریٹر سروسز، پراونشل مینجمنٹ سروسز، سیکرٹریٹ کوآرڈی نیشن کونسل اور اگیگا نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ عدالت نے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کو سنے بغیر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا، انہوں نے ڈی سی آفس پر دھاوا بولنے پر پشاورسیکرٹریٹ سمیت تمام سرکاری دفاتر میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب وکلاء نے عدالتی بائیکاٹ کا خاتمہ اسسٹنٹ کمشنر کی گرفتاری سے مشروط کر لیا اور فیصلہ کیا ہے کہ جب تک انہیں گرفتار نہیں کیا جاتا ہڑتا ل جاری رہے گی، وکلاء کی جانب سے عدالتو ں میں عدم پیشی جب کہ سرکاری ملازمین کی ہڑتال سے ایک طرف عدالتوں میں آنے والے سائلین و مؤکلین کو مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے کیسز پر بغیر کسی پیش رفت سماعت ملتوی کی جارہی ہے تو دوسری طرف متعلقہ دفاتر میں بھی سرکاری امور متاثر ہو رہے ہیں لہذا ان معاملات کو افہام وتفہیم اور قانون کے مطابق حل کرنا چاہیے تاکہ عام لوگ متاثر نہ ہوں کیونکہ اگر ہڑتال میں مزیدتوسیع کی جاتی ہے تو یہ عوام کے مفاد میں نہیں ہے ۔ ادھر وکیل پر تشدد کے واقعہ سے قبل پشاور میں دو وکیل رہزنوں کے بھی بھینٹ چڑھ گئے اور انہیں لوٹ لیاگیا ہے۔ پشاورہائیکورٹ کے وکیل طاہر خان تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد واپس گھر جا رہے تھے کہ صوبائی اسمبلی کے قریب سوری پل پر نامعلوم مسلح رہزنوں نے انہیں روکا اور اسلحے کی نوک پر یرغمال بنا کر ان سے ڈیڑھ لاکھ روپے اور موبائل فون چھین لیا، اسی طرح پہاڑی پورہ کے علاقے یوسف آباد میں مسلح رہزنوں نے دن دیہاڑے پشاور ہائیکورٹ کے وکیل منتظر جمال ولد رحمان آفریدی سے اسلحہ کی نوک پر موبائل فون چھین لیا، اس دوران منتظر جمال نے مزاحمت کی تو راہزنوں نے انہیں زخمی کردیا اور فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوگئے۔
پشاور :وکلاء برادری اور سرکاری ملازمین آمنے سامنے
