ناصرعالم مینگورہ
حکومت نے غریب اور نادار لوگوں کیلئے سرکاری نرخ پر ٹے کی فراہمی کا پروگرام شروع کیاتو لوگوں کی امید پیدا ہوگئی کہ اب انہیں مناسب ریٹ پر معیاری آٹا ملے گا مگر جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو ان کی امید دم توڑ گئی کیونکہ تقسیم من پسند بنیادوں پر ہورہی تھی جبکہ آٹے کے ناقص اور غیر۔معیاری ہونے کی بھی اطلاعات موصول ہونے لگیں،
یہاں پرسرکاڑی آٹے کے حصول کے لئے عوام ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں مگرانتطامیہ صرف تماشادیکھ رہی ہے،عوام۔کہتے ہیں کہ اس وقت سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سمیت نواحی علاقوں میں سرکاری آٹے کے حصول کیلئے وہ شدید مشکلات سے دو چار ہیں اورشہری مخصوص سیل پوائنٹس پرلمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر آٹا خریدنے اور اکثر خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور نظرآرہے ہیں جہاں بدنظمی، لڑائی، جھگڑئےاور بدانتظامی معمول بن چکے ہیں،دوسری جانب آٹا تقسیم کے وقت حکومتی پارٹی کے کارکنان بھی پسند وناپسند کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں،عوام نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ حکومتی پارٹی کے نمائندے اپنے لوگوں میں آٹا تقسیم کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ غریب عوام گھنٹوں قطاروں میں انتظار کے بعد خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں جس پر ضلعی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، خیبرپختونخوا حکومت نے ملک میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد صوبہ کے عوام کو سبسڈائز نرخوں پر سرخ آٹا فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس مقصد کیلئے صوبائی حکومت نے 37 ارب روپے مختص کئے ہیں جہاں عوام کو 20 کلو آٹے کا تھیلہ 1295 روپے میں فراہم کیا جارہا ہے مگر مقام افسوس ہے کہ عوام اور مستحق افراد اب بھی اس سہولت سے محروم ہیں کیونکہ وہ پورادن قطاروں میں دھکے کھانے اور سخت وسست باتیں سننے کے بعد مایوس ہوکر واپس چلے جاتے ہیں،اس صورتحال پر سیاسی اور سماجی حلقوں کہ جانب سے بھی شدید ردعمل سامنے آنق شروع ہوگیا ہے جن کا کہناہے کہ حکومت مختلف صورتوں میں اپنوں کو نوازنے کیلئے عوام کی سہولت کے نام پر پروگرام مرتب کررہی ہے اور ایسے پروگرام۔جب سامنے آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں مستحقین کیلئے کسی قسم کی سہولت موجود نہیں،سرکاری نوکریاں ہویا دیگر پروگرام سب کے سب میں کسی بھی حقداریا ضرورتمند کو یکسر نظر انداز کیا جارہاہے،تولی۔ یافتہ نوجوان اور ہنر مند افراد ملازمتوں اور روزگار کیلئے دوڑدھوپ کرتے نظرآرہے ہیں جن کے حال پر نہ حکومت اور نہ ہی حکومتی نمائندگان کو ترس آتاہے،اس وقت عوام مختلف مسائل،مصائب اور مشکلات کی چکیوں میں پس رہے ہیں،غریبوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ کے ہیں،بہت سے لوگ فاقہ کشی پرمجبور ہیں جس سفید پوشی کی وجہ سے خاموشی کے ساتھ کسی مسیحا کے منتظر ہیں،مرکزی اور صوبائی حکومت نے کے پی کے کے عوام کو قدم قدم پر مایوس کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان میں حکومت کے خلاف سخت غصہ پایا جاتاپے،جہاں بھی دو یا اس سے زیادہ افراد جمع ہوجاتے ہیں تو حکومتوں کیخلاف گفتگو کرکے دل ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اب تو حکومتی پارٹیوں کے اپنے ہی بیشتر کارکن بھی مایوسی اورتذبذب کا شکار نظر آرہے ہیں جبکہ عوام واضح طور پر مایوسی دیکھی جاسکتی ہے،وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت عوام پر مزید مظالم کے پہاڑ توڑنے کی بجائے انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے عملی اور موثر اقدامات اٹھائے تاکہ ان کی مشکلات کا ازالہ اورپریشانی و مایوسی کا خاتمہ ہوسکے۔