ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب سوات کا جہانزیب کالج اس خطے میں علی گڑھ کا درجہ رکھتا تھا۔ مغربی پاکستان کے دور دراز کے علاقوں سے لڑکے یہاں حصولِ علم کے لیے آتے تھے۔ خصوصاً چارسدہ کے طلبہ کے لیے اس کالج میں پڑھنا باعثِ افتخار سمجھا جاتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہاں کا خالصتاً تعلیمی ماحول تھا۔ یہاں پر ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں اور طلبہ تنظیموں پر پابندی تھی اور کسی بھی سیاسی پارٹی کی جرأت نہیں تھی کہ کالج کے طلبہ میں اپنی بغل بچہ تنظیم بنا کر کالج کی فضا میں گندی سیاست کا زہر گھول سکے۔
ہم ابھی اسکول میں تھے لیکن چوں کہ ہمارا گھر کالج کے قریب تھا، اس لیے طلبہ کی سرگرمیوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا تھا۔ ایک صحت مند اور دلچسپ سرگرمی کالج یونین کے انتخابات ہوتی تھی جس میں طلبہ نہایت گرمجوشی سے حصہ لیتے تھے۔ بہت نمایاں طلبہ اس یونین کے عہدے دار رِہ چکے ہیں۔ مجھے جو صدور یاد ہیں، اُن میں پہلے نمبر پر محمود خان تھے، جو بی اے کے آخری سال میں کالج یونین کے صدر بنے۔ موصوف کا تعلق شاہ پور ضلع شانگلہ سے تھا۔ بعد میں قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی خاندانی حیثیت کی وجہ سے والئی سوات کے پرائیویٹ سیکرٹری بنے۔ اسی ملازمت کے دوران میں وہ امریکہ بھی گئے اور وہاں سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں تربیت حاصل کی۔ وہ ادغام کے بعد صوبے میں اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے۔ اُن کے دورِ صدارت میں ہم ابھی سکول ہی میں پڑھتے تھے۔ ہمارے وقتوں میں جو صدور منتخب ہوئے تھے، اُن میں شاہ پور شانگلہ ہی کے فرید خان (جوبعد میں ڈی ای او بنے تھے) چارسدہ کے سعد ملوک خان اور مینگورہ کے شیرافگن خان عرف کاکا شامل ہیں۔
اس کے علاوہ کالج کا اپنا ’’ڈرامیٹک کلب‘‘ تھا جو خاص تقریبات کے موقع پر ڈرامے اسٹیج کرتا تھا۔ بارہ دسمبر کو والئی سوات کے جشنِ تاج پوشی کے اہتمام میں ایک ڈراما مجھے آج تک یاد ہے۔ یہ ڈراما مدتوں تک لوگوں کو یاد رہا۔ کہانی شیکسپیئر کے ڈرامے ’’مرچنٹ آف وینس‘‘ سی لی گئی تھی۔ شائی لاک “Shy Lock” یہودی سوداگر کا پارٹ قاسم سرحدی نے ادا کیا تھا۔ وہ ناک میں بولتے تھے اور ان کا کہا ہوا یہ فقرہ مجھے آج تک یاد ہے، جب وہ جج سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: ’’انصاف کے فرشتے! خدا تمھیں زندہ رکھے۔‘‘ جج کا کردار کالج یونین کے صدر سعد ملوک خان نے ادا کیا تھا۔ سوات ہوٹل کے کشمیری نژاد منیجر بٹ کے بیٹے عارف نے ’’لیڈی پورشیا‘‘ کا رول کیا تھا۔
ان غیر نصابی سرگرمیوں کے علاوہ تعلیمی میدان میں کئی لڑکوں نے اس عظیم مادرِ علمی کا نام روشن کیا جن میں بلوگرام کے اسفند یار قابل ذکر ہیں، جو یونیورسٹی میں ایف ایس سی ٹاپ کرچکا تھا اور پھر انجینئرنگ کالج میں تعلیم کے دوران میں ہر سال فرسٹ آتا رہا۔ شاید آج تک اُس کا یہ ریکارڈ کوئی نہیں توڑ سکا۔ اُن کے علاوہ سوات کے تقریباً تمام ڈاکٹر، انجینئراور ماہرینِ تعلیم اسی ادارے سے فیضیاب ہوچکے ہیں اور تاحال ہو رہے ہیں۔