تحریر: وحید احمد، میاں چنوں
بیماریوں اور وباؤں کا ابتدائے آفرینش سے اب تک انسانوں کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، زمانہ قدیم میں جب طبی علوم اور سائنس موجودہ دور کی طرح ترقی یافتہ نہیں تھے تو وباؤں یا بیماریوں کے پھیلنے کوخداؤں یا الٰہی طاقتوں کی ناراضگی یا انسانی گناہوں کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا،بقراط نے پہلی بار کہا تھا کہ بیماریوں کی وجوہات فطری عناصر اور جسمانی توازن میں بگاڑ ہے نہ کہ خداؤں کا غصہ۔ جیسے جیسے طب اور سائنس نے ترقی کی منازل طے کیں بیماریوں سے متعلق شعور آتا چلا گیا۔ جراثیم کی دریافت کے بعد یہ ثابت ہوا کہ بیماریوں کی اصل وجوہات بیکٹیریا، وائرس،ناقص خوراک،آلودہ ماحول اور صفائی کا فقدان ہے۔ وائرس ایک جرثومہ ہوتا ہے جو انسانوں اور حیوانوں میں انفیکشن کا سبب بنتا ہے، کچھ وائرس دنیا بھر میں مہلک ترین بیماریاں پھیلانے کے موجب سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے تاریخِ انسانی کا نقشہ تک تبدیل کر دیا، حالیہ دور میں بھی ایسے مہلک ترین وائرس موجود ہیں جن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انسانی اموات دیکھنے کو ملیں جن میں کرونا وائرس، ایبولا وائرس، سارس، ایم ای آر ایس وائرس، رِفٹ ویلی وائرس،زیکا وائرس اور لاسا بخار وائرس سرِفہرست ہیں۔ ایچ پی وی ایک وائرس ہے جو ہیومن پپلوما وائرس کا مخفف ہے۔امریکی ادارے ایف ڈی اے کے مطابق یہ کوئی نیا وائرس نہیں ہے لیکن عام لوگ اس کے بارے نہیں جانتے کیونکہ بہت سے لوگوں میں اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور وہ خود بخود ٹھیک بھی ہو جاتا ہے،یہ نہ صرف جنسی تعلقات بلکہ انسانی جنسی اعضاء کو چھونے کی وجہ سے بھی مردوں اور عورتوں دونوں میں یکساں طور پر پھیل سکتا ہے۔ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ کئیر سروس کے مطابق "ایچ پی وی ” وائرس کے ایک بہت ہی عام گروپ کا نام ہے اور یہ زیادہ تر لوگوں میں کسی پریشانی یا بیماری کا باعث نہیں بنتالیکن اس کی کچھ اقسام اعضائے جنسی کے مسوں یا کینسر کا سبب بنتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق یہ جلد کو متاثر کرتا ہے اور اس کی 100 سے زیادہ مختلف اقسام ہیں،ان سو اقسام میں سے 13 اقسام سر، گردن اور جنسی اعضاء کے کینسر اور بالخصوص خواتین میں سرویکل کینسر (بچہ دانی کے منہ کا کینسر) کا موجب بنتی ہیں۔ پیپ سمیئرٹیسٹ کے ذریعے خواتین میں اس کی قبل از وقت تشخیص کی جا سکتی ہے جس سے شرح ا موات نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5 ہزار سے زیادہ خواتین میں سرویکل کینسر کی تشخیص ہوتی ہے اور ساڑھے 3 ہزار سے زائدخواتین اس کینسر کے سبب وفات پا جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے حکومتِ پاکستان نے 15 ستمبر سے ملک بھر میں 9 سال سے 14 سال کی عمرکی لڑکیوں کو بچہ دانی سے جڑے سرویکل کینسر سے بچاؤ کے لیے ایچ پی وی ویکسین لگانے کی قومی مہم شروع کی، جیسے ہی اس ویکسین کا سکولوں میں بچیوں کو لگانے کا اعلان ہوا، ان پڑھ اور شعور سے بے بہرہ لوگوں کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ حلقوں کی جانب سے بھی اس کی مخالفت کا ایک سرگرم محاز کھل گیا جو کہ گمراہ کن اور لغو معلومات جیسے خواتین میں بانجھ پن، مسلمانوں کی نسل کشی،لڑکیوں کی شدید علالت و اموات اور اس جیسی جھوٹی قیاس آرائیوں پر مبنی تھا جس کی اہم ترین مثال سابق انٹیلی جنس چیف حمید گل کے بیٹے عبداللہ گل کی طرف سے X (ٹوئٹر) پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو ہے جس میں ہسپتال کے ایک وارڈ میں سکول یونیفار م میں لڑکیاں شدید بیمار دکھائی دے رہی ہیں اور لکھا ہے کہ ”سکولوں میں جبری ویکسی نیشن کے بعد کئی بچیاں بیمار پڑ گئیں اور انہیں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ خدا کے لیے اپنے بچوں کے معاملے میں واضح اور مضبوط موقف اختیار کریں، دنیا کے تمام تجربات ہمیشہ ہم غریبوں پر کیے جاتے ہیں، سیلاب زدگان کی کوئی مدد نہیں، لیکن مغرب مفت ویکسین دے رہا ہے۔” اس ویڈیو کو بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا، جبکہ حقیقت میں ہسپتال میں موجود سکول کی بچیوں کی یہ ویڈیو آزاد جموں و کشمیر میں آنسو گیس کی شیلنگ کے بعد کی ہے اور اس کا سرویکل کینسر کے خلاف موجودہ ایچ پی وی ویکسی نیشن مہم سے کوئی تعلق نہیں ہے، طوفانِ کذب کا یہ سلسلہ ابھی تک اسی شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی آفیشل ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق2006 میں ایچ پی وی ویکسین کی منظوری کے بعد سے اب تک دنیا کے 149 ممالک اسے اپنی قومی ویکسی نیشن مہم میں شامل کر چکے ہیں اور ان ممالک سے ابھی تک اس ویکسی نیشن کے نتیجے میں کسی بھی ضمنی بیماری یا ہلاکتوں کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا،پاکستان 150واں ملک ہے جہاں یہ ویکسین شروع کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ڈبلیو ایچ او نے پاکستان میں 49 ہزار سے زائد ہیلتھ ورکرز کو ایچ پی وی ویکسی نیشن لگانے کی تربیت فراہم کی ہے۔ ایچ پی وی 70 فیصد سے زائد مریضوں میں سرویکل کینسر کا سبب بنتا ہے جو کہ چھاتی کے کینسر کے بعد خواتین میں پایا جانے والا سب سے عام کینسر ہے۔یہاں ایک قابلِ غور بات یہ ہے کہ ویکسین ہمیشہ تندرست و توانا شخص کو ہی لگائی جاتی ہے جبکہ بیمار کا علاج کیا جاتا ہے، ایچ پی وی ویکسین دنیا کے 149 ممالک میں گزشتہ دو دہائیوں سے لگائی جا رہی ہے اوربِنا کسی دوسرے طبی نقصان کے دنیا بھر میں کروڑوں عورتوں کو سرویکل کینسر سے تحفظ فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے جس کی وجہ سے اس کینسر سے جڑی شرح اموات میں واضح طور پر کمی آئی ہے۔
پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ یہاں ان پڑھ عوام سے پہلے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کو شعور کی ازحد ضرورت ہے جو بنا تحقیق کیے جھوٹی اور گمراہ کن معلومات کی ترویج کے ذریعے سادہ لوح عوام میں بے چینی پھیلاتے ہیں جبکہ قرآنِ پاک کی سورۃالحجرات میں جھوٹی خبر کی تصدیق کا حکم دیا گیا ہے اور حدیث مبارکہ ؐہے کہ "آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کردے” (صحیح مسلم)۔ حکومت کو چاہیے کہ گمراہ کن معلومات پھیلانے والے ایسے تمام سوشل میڈیاسٹارز اور صارفین کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے اور انہیں قرار واقعی سزائیں دی جائیں تا کہ کوئی بھی شخص عوام کودوبارہ گمراہ کرنے یا حکومتی رِٹ کو چیلنج کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔
ایچ پی وی ویکسین اور ہماری غلط فہمیاں














