ڈاکٹر عبیداللہ
پارلیمنٹ، میڈیا اور عوامی اجتماعات میں آج کل حکومتی اور چند حزبِ اختلاف کے بنچوں سے پاکستان، پاکستانیت، انسانیت، حکومتی رِٹ اور مذہبی رواداری کا درس بڑے زور وشور سے دیا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ ان کی دُم پہ پیر رکھ دیا گیا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اس قسم کے لوگ اپنے فساد انگیز، انسانیت دشمن اور اسلام دشمن ماضی کے کرتوت بھلا کر قوم کو نصیحتیں شروع کر دیتے ہیں؟ ان سے کوئی پوچھے کہ یہ پاکستان اور پاکستانیت کس بلا کا نام ہے؟ یہ انسانیت کس لغت کا لفظ ہے؟ کیا پاکستان اس کا نام ہے کہ جس میں آقا محمدؐ کی توہین ہو، جس میں توہینِ رسالت کرنے والوں کو باعزت بری کیا جاتا ہو، جس میں عاشقِ مصطفیؐ کو پھانسی ہو اور توہینِ مصطفی کرنے والا آزاد ہو، جس میں لبرلز کی ہر بکواس کو آزادیِ رائے کا نام اور عقیدۂ اسلام و نظریۂ اسلام کی بات کو انتہا پسندی کا نام دیا جا رہا ہو، جس میں پاکستان کے نظریہ (لاالہ الا للہ) کی حفاظت کی بات ہو رہی ہو، تو اس کو فساد اور موم بتی مافیا (جو نظریۂ پاکستان کو کھوکھلا کرنے کی سازش کر رہا ہو) کو برداشت اور وسعت نظری کے نام پر کھلی چھوٹ دی جاتی ہو؟
پاکستان اور پاکستانیت کی یاد اس وقت آجاتی ہے جب نام نہاد پاکستانیوں کے مفاد زد میں آجاتے ہیں۔ لاکھوں پاکستانیوں کو مارنے، بے گھر کرنے اور ہزاروں کو لاپتا کرنے، ان کو دشمن کے ہاتھ فروخت کرنے کے وقت کسی کو پاکستانیت یاد نہیں آتی۔ انسانی حقوق کا ڈراما رچانے والی ملعونہ آسیہ کی قانونی سزا پر تو واویلا مچا کر اپنے دین تک کو بیچ ڈالتے ہیں، لیکن اپنی مسلمان بہن عافیہ کو کفار کی جیل میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر نہ انسانی حقوق یاد آتے ہیں، نہ انسانیت اور نہ پاکستانیت۔ اس وقت پاکستانیت کسی کو یاد نہیں تھی، جب بیرونِ ملک خفیہ سازش بنا کر منتخب حکومت کو ہٹانے کی کوشش کی جا رہی تھی، جب علی الاعلان سول نافرمانی کی بات ہو رہی تھی اس وقت حکومتی رٹ کی کوئی فکر نہیں تھی جب میڈیا کے سامنے بجلی کے بل جلائے جارہے تھے۔ اس وقت معیشت، کاروبار، تعلیم اور ملکی نظم و نسق کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا تھا جب ملک کے دارالخلافے میں مہینوں دھرنا دیا جا رہا تھا، جب حکومتی رٹ بحال کرنے پر پولیس کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور جب نوجوانوں کو حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسایا جا رہا تھا۔ اس وقت ملک کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کو کسی خاطر میں نہیں لایا جا رہا تھا جب لڑکوں اور لڑکیوں کو رات کے اندھیرے میں نچایا جا رہا تھا۔ ارے! تم پاکستان کی بات کر تے ہو، تم نظم ونسق کی بات کرتے ہو، تم حکومتی رٹ کی بات کرتے ہو، تم قانون کی پاسداری کی بات کرتے ہو، تم برداشت اور رواداری کی بات کرتے ہو، ارے! تم پاکستانیت اور انسانیت کی بات کرتے ہو، مقامِ افسوس ہی ہے!
یہ تمام باتیں درست ہیں، ان پر عمل بھی ہونا چاہیے، مگر کم از کم آپ کے منھ سے یہ باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ یہ ملک اس وقت اصل معنوں میں پاکستان کہلائے گا، اس وقت پاکستانیت ہوگی جب قانون اسلام کا ہوگا، جب فیصلے قرآن وسنت کے مطابق ہوں گے، جب سودی معیشت پر پابندی ہوگی، جب توہینِ رسالت کی سزا موت ہوگی، جب عقیدۂ ختمِ نبوت نہ ماننے والے کافر قرار دیے جائیں گے، جب اس ملک میں غیروں کی مداخلت ختم ہوگی، جب پارلیمنٹ اور عدالت اسلامی تعلیمات کی پابند ہوگی، جب داڑھی، پگڑی اور برقعہ کی عزت ہوگی، جب نماز و زکوٰۃ کا نظام قائم ہوگا۔ کیوں کہ یہ ملک پاکستان اسی مقصد کے لیے آزاد کیا گیا تھا۔ یہ ملک اس وقت تک خوشحال اور پُرامن نہیں ہوسکتا، جب تک اس میں ’’لاالہ الااللہ‘‘ کا نظام قائم نہیں ہوتا، اور اس کے لیے جدوجہد جاری رہے گی۔
پاکستان اور پاکستانیت کی یاد آئی
