روح الامین نایابؔ
آج کل شاعری کی کتابیں بہت چھپ رہی ہیں۔ ہر سال ڈھیروں پشتو شعری مجموعے شائع ہو رہے ہیں۔ اگرچہ شاعری انسانی جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے ضروری ہے ،لیکن نثر نگاری ذرا مشکل کام ہے۔ کیوں کہ اس کے لیے وسیع مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بہت محنت طلب کام ہے۔
’’منظر او پس منظر‘‘ محترم سراج الدین سراجؔ کا نثری مجموعہ ہے۔ مجھے حیرانی اس لیے ہوئی کہ اس سے پہلے موصوف کے تین عدد پشتو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں، وہ بھی میری نظر سے گزرے ہیں۔ سراجؔ صاحب کی شاعری میں سنجیدگی کے ساتھ ساتھ طنز کا عنصر بھی شامل ہے۔ ان کی شاعری غیر رسمی قسم کی ہے اور عوامی رنگ لیے ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے سوات کے ادبی حلقوں میں بالخصوص اور پختونخوا میں بالعموم اپنا ایک مقام بنا لیا ہے۔ ان کی شاعری کی کتابوں پر پختونخوا کے مختلف شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے تعارفی تجزیاتی تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ سراج الدین سراجؔ پشتو قطعات کہنے میں بابائے قطعہ عبدالرحیم روغانےؔ کے بعد اپنا ایک الگ مقام بنا چکے ہیں۔ انہی کا ایک قطعہ عرض ہے:
ھغہ خلک د خے ورزی خاوندان شی
جوڑولے چی دَ پِش نہ پِشم خان شی
چی ہر چاتہ آئینہ مخے تہ نیسی
پہ واللہ کہ پہ دی دور کی کامران شی
میں شاعری کی اہمیت سے انکار تو نہیں کرتا، لیکن جب پشتو میں نثر کی کتاب دیکھتا ہوں، تو از حد خوش ہوتا ہوں۔ کیوں کہ جب تک کسی زبان میں نثر، نظم سے زیادہ متعارف نہ ہو، وسعت اختیار نہ کرے اور پھیل نہ جائے، اس وقت تک وہ زبان معذور، غریب اور نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ غالباً ہمارے شاعر بھائی اور دوست سراج الدین سراجؔ کو بھی یہ احساس ہوچکا ہے۔ اس لیے انہوں نے تین عدد پشتو شعری مجموعوں کے بعد اب ایک نثری مجموعے کو شائع کرنا ضروری سمجھا۔
’’ منظر او پس منظر‘‘ سراج الدین سراجؔ کا دو سو آٹھ صفحات پر ایک خوبصورت نثری مجموعہ ہے۔ اسے کیا نام دوں؟ کوئی بھی نام دیا جائے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ وہ جذبات و احساسات ہیں جو سراجؔ صاحب نے زندگی کے تلخ حقائق سے اخذ کیے ہیں۔ کچھ اپنے واقعات اور کچھ مشاہدات کے ساتھ اُن پر اپنے نازک تاثرات قلم بند کیے ہیں۔
پاکستانی معاشرے اور پھر خاص کر پختون سماج میں جو جبر اور زیادتی ہورہی ہے۔ مادی دور میں جو بیگانگی کی فضا پنپ رہی ہے۔ قدم قدم پر جب غریب عوام زبوں حالی، غربت، بے بسی اور ناانصافی کا سامنا کررہے ہیں، اُس وقت سراجؔ کے قلم نے ایک تیز نشتر کا کام کرکے تمام اندرونی اور بیرونی زخموں کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ معاشرے کے تضادات کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔
ادب، معیار، تعلیم، صحت، تبدیلی، محنت، دوستی، احساس، نصیب، غرض روزمرہ زندگی کے ہر موضوع پر اس کی حقیقت، مصنوعیت اور پھر دوغلے پن کا ایسا بے حجابانہ اظہار کیا ہے کہ ہر تحریر اور واقعہ اپنا قصہ اور داستان معلوم ہوتا ہے۔ ایسا آئینہ جس میں ہر ظالم اور مظلوم اپنا اپنا عکس صاف دیکھ سکتا ہے۔ سراجؔ صاحب کے نزدیک لاتعداد روز مرہ زندگی کی بے انصافیاں، دھوکے، فریب، جھوٹ جنہیں ہم عام طور پر در خور اعتنا سمجھتے ہیں، یہی تو اصل کہانیاں اور دلچسپ واقعات ہیں، جن سے ہماری زندگی ہنگامہ خیز بنی ہوئی ہے، تلخ اوقات اور لمحات میں ڈھل چکی ہے اور ہم زندگی کے اس سمندر میں مجبورِ محض ہیں کہ ان لہروں میں بہتے جائیں۔ اب چاہے یہ ہمیں کسی کنارے لگا دیں، یا بے بسی کی حالت میں ڈُبا دیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ سراجؔ صاحب کی نظم ہو یا نثر، دونوں میں عوامی رنگ ہے۔ یہ دونوں نچلے اور پسے ہوئے طبقات کی مجبوریوں کے احساسات و جذبات کے ترجمان ہیں۔ دونوں میں تڑپ ہے۔ فریاد کے ساتھ ساتھ طنز بھی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بعض واقعات و مشاہدات کے بیان کرنے کے بعد ایک پیغام دینے کے ساتھ ایک نصیحت آموز سبق دینے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ اس بارے میں ’’صحت مندی‘‘، ’’جٹکہ‘‘، ’’نظام‘‘ اور ’’ژوندون‘‘ پڑھنے لائق مضامین ہیں۔ اپنے بچپن اور جوانی کی حسین یادوں کا ذکر کرتے ہوئے ’’زاڑہ یادونہ‘‘ تحریر کرکے ہر پڑھنے والے کو ماضی کے جھروکوں میں ایسے دھکیل دیا ہے کہ بے اختیار زبان پر یہ شعر آجاتا ہے:
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اس کتاب میں بعض مضامین کو پڑھنے سے معلومات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پرانی اور نئی باتوں کا فرق، پرانے اور نئے رسوم رواج کا امتیاز واضح ہوجاتا ہے اور وہ نوجوان نسل جس کو اپنے معاشرے کی پرانی عادات و اطوار، تہذیب و تمدن کی معلومات نہیں، اس کتاب کے پڑھنے سے دلچسپ پیرائے میں وہ تمام معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔
’’منظر او پس منظر‘‘ کا سرورق ایک عام قاری کو غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اس پر سوچ لے، کیوں کہ اس پر چھپی ایک تصویر دو رُخ رکھتی ہے؟ دیکھنے اور سمجھنے کا تعلق زاویۂ نگاہ سے ہے، کہ آپ کس زاویے سے تصویر کو ملاحظہ کررہے ہیں اور آپ کو کیا دکھائی دے رہا ہے؟
غرض یہ کتاب ’’منظر او پس منظر‘‘ عام انسانی جذبات، حرکات، سکنات اور واقعات کے وہ مناظر لیے ہوئی ہے جو انسان مختلف اوقات میں دیکھتا رہتا ہے۔ سراج الدین سراجؔ صاحب نے ان تمام واقعات کو خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنادیا ہے۔ کتاب کا انتساب بھی بہت اچھا اور عوامی ہے۔ کتاب پر سوات اور پختونخوا کے شاعروں اور ادیبوں نے اپنے قابلِ قدر تاثرات قلم بند کرکے اس کی اہمیت اور خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ اگر کتاب مجلد ہوتی، تو اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوتا۔ مناسب قیمت یعنی دو سو روپیہ کے عوض یہ کتابوں کی ہر اچھی دکان پر دستیاب ہے۔ میں سراجؔ کو اس اچھے، خوبصورت اور اُس کے پہلے نثری مجموعے کی اشاعت پر دلی مبارک باد دیتا ہوں اور ساتھ شکر گزار بھی ہوں کہ انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا کہ اپنی کتاب تحفتاً دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب پر تبصرہ
