نعمان سعید
کہتے ہیں کہ جب ذمہ داری نا اہل لوگوں کے سپرد کی جاتی ہے، تو پھر ادارے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت بر سر اقتدار آئی ہے، تو اداروں میں مختلف قسم کے نئے تجربات شروع کیے گئے ہیں۔ صحت کے شعبہ میں ہیلتھ ریفامز کے نام پر تبدیلیاں کی گئیں اور اس کے لیے امریکہ میں بیٹھے اپنے رشتہ دار کی ذمہ داری لگائی گئی جو سکائپ کے ذریعے امریکی محکمہئ صحت کے ریفارمز خیبرپختونخواہ کے ہسپتالوں میں لاگو کرنا چاہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہاں پر پہلے سے موجود نظام دھڑام سے اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ اس بندے کو نہ یہاں کے زمینی حقائق کا پتا ہے اور نہ لوگوں کی معاشی صورتحال کا۔ نتیجہ کیا نکلنا تھا، ڈاکٹرز کی ہڑتال کی وجہ سے بیچارے مریض رُل گئے۔ کچھ اسی طرح کے تجربا ت تعلیم کے میدان میں بھی کیے گئے، جس میں حالیہ فیصلہ کہ جماعت نہم ودہم اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ اب کمباینڈ امتحان دیں گے۔ اس طرح جماعت ہشتم کے بورڈ کے امتحان کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہمارے اربابِ اختیار اب وہی پرانا گھسا پھٹا طریقہ دوبارہ رائج کرنا چاہتے ہیں۔
محترم قارئین، ہمارے صوبے کے ارباب اختیار وہی تجربہ خیبر پختونخواہ میں کرنا چاہتے ہیں جو پنجاب میں ناکام ہوچکا ہے۔ اس سے طلبہ پر بہت زیادہ بوجھ پڑے گا کہ وہ دو سالوں کے کورس میں اکھٹا امتحان دیں گے۔ دنیا سیمسٹر کی طرف جا رہی ہے اور ہم اینول کی جگہ اب دوسالہ امتحان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ رہا جماعتِ ہشتم کے بورڈ کا معاملہ، تو پہلے بوڑز کون سا مثالی انداز میں امتحانات لیتے ہیں کہ اب جماعتِ ہشتم کے امتحان کا بوجھ بھی بچوں کے ناتواں کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔
قارئین، اب آتے ہیں پرائیویٹ تعلیمی ادروں کی طرف۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ حکومت نے ابھی تک یہ ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، جس کے نتیجے میں پرائیویٹ سیکٹر میں لوگوں نے یہ ذمہ داری اٹھانی شروع کی۔ نتیجتاً پرائیویٹ تعلیمی ادارے قائم ہوگئے۔ اب بجائے اس کے کہ حکومت اپنی ذمہ داری کااحساس کرتے ہوئے نجی شعبہ کے ساتھ تعاون کرے، حکومت نے نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک شروع کیا۔ ”پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی“ (پی ایس آر اے) کے نام پر ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا۔ یہ ادراہ تعلیمی اداروں کے لیے قائم کیا گیا اور اس کا سربراہ ایک سول سرونٹ ڈی سی لیول کے شخص کو لگایا گیا، جس کا اس شعبہ کے ساتھ کوئی تعلق تھا، نہ اس کا تعلیم کے شعبہ کے بارے میں کوئی تجربہ ہی تھا۔ اب آپ بتائیں کہ وہ اس شعبہ کا کیا حشر کرے گا؟ چاہیے تو یہ تھا کہ کسی ماہر تعلیم کو اس ادارے کا سربراہ لگایا جاتا، جو کم از کم اس شعبہ کا تجربہ تو رکھتا۔ اب جس شخص کو پی ایس آر اے کا سربراہ لگایا گیا ہے، وہ کھلم کھلا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ساتھ دشمنی پر اتر آیا ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی نوٹیفیکیشن جاری فرماتا ہے، جس سے والدین اور تعلیمی اداروں کے مالکان کے درمیان تنازعہ پیدا ہوتا ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق 29 مئی کو ادارے کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایڈمن نوٹیفیکیشن جاری کرتا ہے کہ جن سکولز کی فیسیں 5000 یا 5000 سے کم ہیں، وہ چھٹیوں کی فیس سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق لے سکتے ہیں، جب کہ 30 تاریخ کو ایم ڈی پی ایس آر اے کی انا اور ضد ایک دفعہ پھر انگڑائی لیتے ہیں، اور بادشاہ کی طرح ایک اور نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے کہ کوئی بھی پرائیویٹ سکول چھٹیوں کی فیس نہیں لے گا۔ اب اس حکم نامے سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟ یا تو اس بندے کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے، کیوں کہ موجودہ حکومت سستی شہرت کی دلداہ جو ہے۔ یا یہ اسٹیبلشمنٹ کا بندہ حکومت کو ایک اور بڑے بحران سے دوچار کرانا چاہتا ہے۔ اب چھٹیوں کی فیس نہ لینے کی بات کو ہی لیجیے اور اس پر ذرا غور فرما لیں۔ جب نجی تعلیمی ادارے فیس نہیں لیں گے، تو وہ چھٹیوں میں اساتذہ کی تنخواہیں، بلڈنگ کرایہ اور بجلی کے بل کیسے اور کہاں سے ادا کریں گے؟ کیوں کہ زیادہ تر اداروں کی فیس کی رینج 500 سے 2000 روپے کے درمیان ہے۔ زیادہ تر سکولوں میں بچوں کی اوسط تعداد 300 ہوتی ہے۔ اس حوالہ سے والدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھیں۔ کیوں کہ ذمہ دار والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ ان مڈل کلاس والدین کے بچے اشرافیہ کے بچوں کے مقابلے کے لیے میدان میں موجود ہیں اور اشرافیہ کا واضح ایجنڈا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے میدان خالی رکھنا چاہتے ہیں۔
ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ تعلیم کے میدان میں مزید تجربات سے اجتناب کیا جائے، اور ایم ڈی پی ایس آر اے کو فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے منتخب ممبران نے پی ایس آر اے کے ساتھ جن معاملات پر متفقہ طور پر پی ایس آر اے ایکٹ میں جو ترمیمات کی ہیں، ان پر من وعن عمل کیا جائے اور کسی ایک بندے کو اپنی من مانی نہ کرنے دی جائے۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا نوحہ
