ثنا نقوی
گزشہ سال انہی دنوں ہر طرف سرخ و سبز جھنڈوں کی بہار نظر آتی تھی، پرانے پاکستان کے پرانے نظام سے اُکتائے ہوئے لوگ تبدیلی چاہتے تھے، سابق حکمرانوں، سیاستدانوں کے وعدوں اور دعوؤں کے پورا نہ ہونے سے مایوس لوگ پھر سے پُر امید ہوگئے تھے، جس سڑک سے گزر ہوتا وہیں پارٹی ترانوں اور نعروں کی گونج سنائی دیتی، گو گمان ہوتا تھا کہ قبل از وقت تبدیلی کا جشن منایا جا رہا ہو، خیر وہ دن بھی آگیا جب اعلان ہوگیا کہ تبدیلی آنہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے۔ بس پھر کیا ابھی وزارتیں الاٹ نہیں کی گئی تھیں، حلف اٹھائے نہیں گئے تھے کہ ہمارے بے چین عوام نے توقعات کے پورا ہونے کا وقت گننا شروع کردیا۔ ہر ٹی وی اسکرین پر بھی یہی دیکھنے کو ملتا کہ فلاں ادارے، فلاں جگہ تبدیلی نہ آسکی، یہاں تک کہ کبھی لگنے لگتا یہ تبدیلی ہے یا الہ دین کا چراغ جسے رگڑنے سے کوئی جن حاضر ہوتا اور عرض کرتا کہ کیا حکم ہے میرے آقا؟، آقا تخت پر براجمان حکم صادر کرتے اور جھٹ پٹ تبدیلی آجاتی۔
خیر یہ تو بات تھی ہماری جلد باز 80 فیصد عوام کی، باقی 20 فیصد عوام نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتظار کیا، ایک مہینہ، دو، تین، چھ مہینے، انتظار طویل ہوتا گیا، کرتے کرتے سال ہونے کو آگیا اور تبدیلی کا راگ الاپتے زیادہ تر کھلاڑی اب خود بھی تبدیلی سے آنکھیں چراتے ہوئے نظر آنے لگے، جہاں پارٹی ترانے بجتے تھے وہاں اب احتجاجی نعرے سنائی دیتے ہیں، جہاں خان صاحب کی فین فالو انگ کم ہوئی، وہیں کچھ پکے کھلاڑی اب بھی انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصل تبدیلی کی راہ میں نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
ویسے تبدیلی بڑی بہترین چیز ہے بشرطیکہ مثبت ہو لیکن سوال یہ ہے کہ ہم جو دوسروں سے اپنی زندگی میں تبدیلی کی آس لگا کر بیٹھ جاتے ہیں ہم خود اپنی زندگی میں تبدیلی لانے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟۔ سیاستدانوں، حکمرانوں کی نااہلیوں کا ذکر کرکے نظام کی خرابی کا سارا ملبہ ان کے سر ڈال کر ہم اس سب سے ماورا ہو جاتے ہیں، اگر آپ بحیثیت ایک شہری اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس نظام کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہم خود ہیں۔
مثال کے طور پر ہم حکومت کی جانب سے شروع کی جانیوالی ٹریفک آگاہی مہم کی بات کرلیں تو آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ چالان پر چالان ہوئے، بائیکرز کو سختی سے ہیلمٹ پہننے کی ہدایت کی گئی، اب کئی بار دیکھنے میں آتا ہے کہ ہیلمٹ بائیک کے ساتھ لٹکا ہے لیکن پہنا نہیں گیا، بس چالان سے بچنے کیلئے اسے ساتھ رکھا گیا ہے جبکہ آپ کے ہیلمٹ پہننے سے حکمرانوں کو کوئی فائدہ نہیں، یہ آپ کی قیمتی جان کی حفاظت کیلئے ہی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہاں آپ کے سر پر ہیلمٹ کے بوجھ کی صورت رکھ دی جانیوالی تبدیلی کو آپ نے خود قبول نہیں کیا اور سر سے اتار کر پھینک دیا۔
اسی طرح حکومت کی جانب سے کلین اینڈ گرین مہم شروع کی گئی، جس میں شہروں سمیت مضافاتی علاقوں میں بھی صفائی کا آغاز کر دیا گیا، چھوٹے سے چھوٹے دیہاتوں سے بھی گندے پانی کے تالاب اور کوڑا کرکٹ ختم کر کے صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا گیا، اسی مہم کے تحت شجر کاری بھی کی گئی اور لاکھوں کی تعداد میں پودے لگائے گئے، جابجا پھیلی تجاوزات کو ہٹایا گیا، تجاوزات کیخلاف کارروائی میں بجائے انتظامیہ کا ساتھ دینے یا ان کو سراہنے کے ہم نے سفارشات کا آسرا لینے کی کوشش کی اور کچھ نہ بن سکا تو چند روز بعد دوبارہ اسی جگہ اپنے ٹھیلے، دکانیں، بازار قائم کرلئے اور تبدیلی کی ہوا کا رخ موڑ دیا، اسی طرح ہم بڑے آرام سے اپنی چلتی ہوئی گاڑی سے کوڑا کرکٹ سڑک پر پھینکتے ہوئے کلین اینڈ گرین مہم کو ٹائروں تلے روندتے چلے جاتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عام انتخابات سے پہلے اعلان کیا گیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد چاروں صوبوں کے گورنر ہاؤسز کو عوام کیلئے کھول دیں گے اور ان عمارتوں کو دیگر مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جائے گا۔ اسی اعلان کے مطابق ہر اتوار کو صبح 10 سے شام 6 بجے تک گورنر ہاؤس کو عوام کیلئے کھولا جانے لگا، گورنر ہاؤس پنجاب میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر داخل ہوا اور گورنر ہاؤس کی بنیادیں تک ہلا گیا، کہیں جھیل کا پل ٹوٹ کر گرا اور کہیں باغیچوں میں لگے پھل اور سبزیاں توڑ کر گھر لے جائی گئیں، لیجئے آگئی تبدیلی۔
چلیں بحث کو طویل کئے بغیر ان چند سوالوں سے خود کا جائزہ لیتے ہیں
کیا آپ ان قوانین کو فالو کرتے ہیں؟۔
کیا آپ نے کبھی کوئی درخت لگایا؟۔
کیا آپ نے کہیں آس پاس لگے پودے کو کبھی پانی دیا ہے؟۔
کیا آپ نے کبھی کسی صفائی مہم میں حصہ لیا؟۔
کیا آپ اپنے کام کی آسانی کیلئے سفارش اور رشوت کے استعمال سے بچتے ہیں؟۔
کیا آپ اسپتال میں تحمل سے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں؟۔
کیا آپ شادیوں اور دیگر تقریبات میں اتنا ہی کھانا نکالتے ہیں جتنا آپ کو کھانا ہے؟۔
کیا آپ واقعی تبدیلی چاہتے ہیں؟۔
سوال تو بہت ہیں لیکن فی الحال آپ خود سے یہ چند اہم سوال کریں، اگر جواب ہاں میں ہیں تو آپ ایک اچھے شہری ہیں اور تبدیلی کے سبز باغ دکھانے والے حکمرانوں کے گریبان تک رسائی آپ کا حق ہے اور جواب نہیں ہیں تو برائے مہربانی تبدیلی کا ڈنڈا جو آپ نے حکمرانوں کے سر پر اٹھا رکھا اسے نیچے رکھیے اور ان سوالوں کے جواب ’’ہاں‘‘ میں تبدیل ہونے تک تبدیلی کا انتظار کیجئے۔ کیونکہ اصل تبدیلی تب ہی آتی ہے جب انفرادی طور پر خود کو تبدیل کیا جائے