سوات (بیورورپورٹ) سوات میں فوج کی جانب سے انتظامی اختیارات، سول انتظامیہ کو منتقل کرنے کا ایک سال مکمل ہوگیا۔وعدے کے مطابق ایک سال میں فوج نے سوات سے جانے کا وعدہ پورا کرلیا۔ اس سے پہلے گیارہ سال تک تمام انتظامی اختیارات پاک فوج کے پاس تھے۔ 22اکتوبر 2018ء کو اختیارات سول
انتظامیہ کو منتقل کرنے کے لئے تقریب سیدو شریف ائیر پورٹ پر منعقد ہوئی تھی، جس میں وزیر اعلیٰ محمود خان، اس وقت کے کور کمانڈر نذیر بٹ اور موجودہ وزیر اطلاعات شوکت علی یوسف زئی نے بھی شرکت کی تھی۔ تقریب میں پاک فوج نے تمام سول اختیارات سول انتظامیہ کو منتقل کئے تھے اور فوج نے سوات سے واپس جانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد فوج کی مرحلہ وار واپس شروع ہوئی۔ سوات میں شدت پسندوں کی جانب سے ہتھیار اٹھانے کے بعد اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت نے پاک فوج کو سوات جانے اور شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کرنے کا حکم دیا تھا جس پر 20 اکتوبر 2007ء کو دو ڈویژن فوج نے سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع میں آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ آپریشن مکمل ہونے اور نقلِ مکانی کرنے والے افراد کی واپسی کے بعد فوج نے سوات کی سڑکوں پر درجنوں چیک پوسٹیں قائم کی تھیں۔اس وقت سوات میں ایک بریگیڈ فوج ہے، جو ایف سی کیمپ میں ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چھاؤنی کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد وہ فوج چھاؤنی میں منتقل ہو جائے گی۔ فوج نے مرحلہ وار واپسی کا اعلان کیا تھا اور ایک سال میں فوج سوات سے چلی گئی۔ کالم نگار اور کئی کتب کے مصنف فضل ربی راہی کا کہنا ہے کہ چیک پوسٹوں کا خاتمہ ہی سوات میں امن کا ثبوت ہے۔ خاص کر جب سیاح یا کاروباری لوگ سوات آتے تھے، تو اس ماحول میں ان کو لگتا تھا کہ سوات میں امن نہیں ہے۔ سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر اور امن جرگہ کے رکن الحاج زاہد خان جو خود بھی ایک قاتلانہ حملہ میں شدید زخمی ہوئے تھے، نے میڈیا کو بتایا کہ سوات میں امن و امان ہے۔ اب لوگ دن رات بلا خوف و خطر سفر کرتے ہیں۔ سیاحوں کا بڑی تعداد میں آنا بھی شروع ہوگیا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے افراد جو حالات کی خرابی میں ملوث تھے، کو رہا کیا گیا ہے جس کی وجہ بعض لوگ خوف محسوس کر رہے ہیں ۔
سوات میں فوج کی جانب سے انتظامی اختیارات، سول انتظامیہ کو منتقل کرنے کا ایک سال مکمل ہوگیا
