بونیر:خیبرپختونخوا حکومت کی تعلیمی ایمرجنسی کے باجود ضلع بونیرمیں سال بھر سرکاری سکولوں کے طلباء وطالبات نصابی کتابوں سے محروم رہیں اورسال کے آخر میں طلبہ میں نصابی کتابیں تقسیم کی گئیں۔

طلبہ کے والدین نے صوبائی حکومت کی اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نومبر کے آخری ایام میں نصابی کتابیں تقسیم کرنا سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کیساتھ ظلم ہے، سال بھر کتابوں سے محروم رہنے والے بچوں کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک مہینے میں سال بھر کا کورس مکمل کریں۔اس حوالے سے ضلع بونیر کے رہائشی انجینئر ناصر علی نائب نے ’’روزنامہ شہباز ‘‘کو بتایا کہ طلبہ کو وقت پر کتابیں میسر نہ ہونے سے ان کا کافی وقت خراب ہوا ہے اور اگر دیکھا جائے تو ایک مہینے بعد دسمبر میں موسم سرما کی چھٹیاں بھی شروع ہوجائیں گی جس سے تمام سرکاری سکولز بند ہوجائیں گے اور بچوں کا کورس ادھورا رہ جائیں گا۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ محکمہ تعلیم کی غفلت اور وقت پر کتابیں فراہم نہ کرنے کی وجہ سے بچوں کیامستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ’روزنامہ شہباز‘ نے جب بونیر سنٹر ون سکول کے سنٹرل انچارچ نور بخت شاہ سے رابط کیا تو انہوں نے بتایا کہ رواں سال کے آغاز میں ہم نے سواڑی سکول کے 600 طلبہ کیلئے کتابیں منگوائی تھیں لیکن اسی دوران تقریبا 88 بچوں نے پرائیوٹ سکولوں سے سرکاری سکول میں داخلہ لیا جس کی وجہ سے طلبہ کی تعداد میں اضافہ کے باعث کتابوں میں کمی واقع ہوئی۔

انکا کہنا تھا کہ کمی کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے پچھلے سال کی پرانی کتابیں بچوں میں تقسیم کیں اوراس سے کام چلا لیا۔بخت شاہ کے مطابق ضلع بھر میں بچوں کو پشتو کی کتاب نہیں ملی تھی لیکن موجودہ کتابوں میں پشتو کی کتابیں آنے سے وہ کمی بھی پوری ہوگئی ہیں۔ اسلامیات کی کتاب کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ جماعت نہم اورد ہم کی اسلامیات میں ختم نبوت کی مضمون شامل ہونے پروہ کتاب دوبارہ طلبہ میں تقسیم کی گئی ہے۔

بخت شاہ نے مزید بتایا کہ محکمہ تعلیم ضلع بونیر نے رواں سال اپریل میں صوبائی محکمہ تعلیم سے 30 کتابوں کا مطالبہ کیا تھا جس میں 15 ہزار اگست جبکہ باقی گزشتہ روز سکولوں کو مہیاں کردی گئیں۔

دوسری جانب ضلع بونیر کے محکمہ تعلیم نے کہا ہے کہ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی کوشش ہوگی کہ یہ کورس پورا کیا جائے۔